1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی : اغوا شدہ چار پاکستانی مہاجرین میں سے ایک کا مبینہ قتل

صائمہ حیدر
3 جنوری 2017

ترکی میں پناہ کی تلاش میں آنے والے گوجرانوالہ کے چار اغوا شدہ پاکستانی مہاجر لڑکوں میں سے ایک کو مبینہ طور پر ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ باقی تین کی بازیابی کے لیے تاوان مبینہ طور پر آج منگل کو پشاور میں ادا کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2VCGZ
Griechenland Lebos Migranten aus Pakistan Rückführung Türkei
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ترکی میں پاکستانی سفارتی مشن  اس حوالے سے ترک حکام کو آگاہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں تصویر: DW/R. Shirmohammadi

آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ذیشان عبدالخالد تقریباﹰ چھ ماہ قبل جرمنی آنے کے ارادے سے اپنے دوستوں کے ہمراہ ترکی پہنچے تھے۔ ان تینوں نے تین ماہ ترکی میں پناہ گزینوں کی حيثيت سے گزارے۔ پھر کسی نے انہيں ملازمت دلانے کا وعدہ کیا اور بعد ازاں ذیشان اور اس کے دوستوں نے ترکی ہی میں غیر قانونی طور پر ملازمت شروع کر دی۔

ملازمت کے کچھ عرصے بعد ہی انہیں مبینہ طور پر مشتبہ کُرد اغوا کاروں نے اغوا کر لیا اور اب اُن کے اہلِ خانہ سے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو یہ تمام معلومات جرمنی میں مقیم شہزاد حسین نے فراہم کی ہیں، جو خود بھی ترکی اور یونان کے راستے جرمنی پہنچے اور اب یہاں پناہ گزین کی حیثیت سے سکونت پذیر ہیں۔

شہزاد حسین کا دعویٰ ہے کہ ذیشان عبدالخالد کے بھائی نعیم عبدالخالد اُن کے قریبی دوست ہیں اور انہیں نعیم عبدالخالد نے اِن افراد پر اغوا کاروں کے تشدد کی ویڈیوز بھی دکھائی ہیں جو اُنہیں ایک ویڈیو ایپليکيشن کے ذریعے بھیجی جا رہی ہیں۔

شہزاد حسین نے بتایا کہ اغوا کاروں نے بیس ہزار ڈالر فی کس تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب اُنہوں نے ترکی میں اپنے جاننے والے دوست احباب سے اس سلسے میں مدد طلب کی تو انہوں نے شہزاد حسین کو یہ معلومات فراہم کیں کہ اغواکاروں میں مبینہ طور پر ایک پاکستانی شہری بھی شامل ہے، جو صوبے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتا ہے۔

Rückführung der Flüchtlinge in die Türkei
ترکی اور یورپی یونین میں معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Panagiotou

شہزاد حسین کا کہنا ہے کہ مغوی ذیشان کے بھائی نعیم اور اہلِ خانہ براہ ِ راست میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ شہزاد حسین نے بتایا کہ ذیشان اور اُس کے دوستوں سمیت کُل چار افراد کو مبینہ طور پر کرد باشندوں نے اغوا کیا تھا، جن میں سے ایک مغوی کو، جس کا تعلق پاکستانی شہر پشاور سے بتایا گیا ہے، مبینہ طور پر گزشتہ روز ہلاک کر دیا گیا۔

شہزاد حسین کی معلومات کے مطابق آج بروز منگل مورخہ تین جنوری کو تاوان کی رقوم پشاور میں ادا کی جانی ہیں، جس کے بعد گوجرانوالہ کے رہائشی ان تینوں لڑکوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ شہزاد حسین نے یہ بھی کہا کہ قریب ایک ہفتہ پہلے ان افراد پر تشدد کی ویڈیوز اہلِ خانہ کو موصول ہونا شروع ہو گئی تھیں اور یومیہ سات سے آٹھ ویڈیوز بھیجی جا رہی ہیں۔

حسین کے مطابق اُن کی ذیشان کے بھائی نعیم عبدالخالد سے ترکی میں دوستی ہوئی تھی اور جب اُن کے بھائی اغوا ہوئے تو نعیم عبدالخالد نے شہزاد سے مدد کے ليے رابطہ کیا کیونکہ شہزاد حسین کی ترکی میں جان پہچان تھی۔

دوسری جانب پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں ترکی میں نوجوان پاکستانیوں کے اغوا سے متعلق خبر پر کہا گیا ہے کہ ملکی وزارتِ خارجہ اِس معاملے پر میڈیا میں آنے والی خبروں سے آگاہ ہے اور ترکی کے شہروں انقرہ اور استنبول  میں پاکستانی سفارتی مشن  اس حوالے سے ترک حکام کو آگاہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق ترک حکومت بھرپور تعاون کر رہی ہے۔