1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں ریلی, فوجی ساز دھنیں بکھیرتے رہے

عبد الشکور7 اگست 2016

ترکی میں تین ہفتوں سے جمہوریت کی حمایت میں جاری عوامی ریلیوں اور جلوسوں کے اختتام کا اعلان کرنے کے لئے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول میں ایک جلسئہ عام منعقد کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1Jd3F
Türkei - Kundgebung in Istanbul gegen den Umsturzversuch
بغاوت میں حصہ نہ لینے والے فوجی افسران کے علاوہ ملک کے ممتاز کھلاڑی، فنکار اور دانشور بھی فوجی مداخلت کے خلاف منعقد کی گئی اس ریلی میں شریک ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

’’جمہوریت اور شہدا‘‘ کے عنوان سے منعقد کیے گئےاس جلسے کے شرکاء میں ہر عمر سے تعلق رکھنے والے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی افراد شامل تھے۔ ریلی کے شرکا کی اکثریت نے ترکی کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے علاوہ وزیراعظم بن علی یلدرم اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس ریلی میں شرکت کی۔ بغاوت میں حصہ نہ لینے والے فوجی افسران کے علاوہ ملک کے ممتاز کھلاڑی، فنکار اور دانشور بھی فوجی مداخلت کے خلاف منعقد کی گئی اس ریلی میں شریک ہوئے۔ریلی کے شرکا کو محظوظ کرنے کے لئے سٹیج پر سلطنت عثمانیہ کی طرز پر فوجی سازندے دھنیں بکھیرتے رہے۔

اس موقع پر استنبول میں سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئےتھے۔ جلسہ گا ہ کے ارد گرد ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ داخلی راستوں پر سیکیورٹی سکینرز نصب تھے۔ریلی میں شرکت کے لئے آنے والے افراد کی جامہ تلاشی بھی لی گئی۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد پچاس ہزار سے زائد افراد کو گرفتاریوں ،حراست اور ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گولن سے تعلق کے الزام میں میڈیا کے ایک سو بیالیس اداروں کو بند اور متعدد صحافیوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ ترک رجب طیب ایردوان نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ملک میں تین ماہ کے لئے ہنگامی حالت کا نفاذ کیا تھا۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد ترکی میں یورپی یونین کے انسانی حقوق کا کنونشن بھی معطل ہو گیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد شہری آزادیاں سلب کرنا نہیں بلکہ ملکی جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کا صفایا کرناہے۔

Türkei - Kundgebung in Istanbul gegen den Umsturzversuch
ریلی کے شرکا کی اکثریت نے ترکی کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھےتصویر: Reuters/O. Orsal

ناقدین کا کہناہے کہ ایمرجنسی کا نفاز اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لٗے عدالتی اور قانونی راستے سے بچا جا سکے۔ترک صدر یہ عندیہ بھی دے چکےہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے منظوری دی تو وہ سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر سکتے ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ بغاوت میں شامل افراد کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔امریکہ ،یورپی یونین اور اندرون ملک اپوزیشن کی جماعتیں ترکی کی حکومت پر زور دیتی آ ئی ہیں کہ وہ ناکام فوجی بغاوت کے خلاف اپنی کاروائیوں کو قانون کے دائرے میں رکھیں۔

ترکی کی حکومت امریکہ میں مقیم ترک مبلغ اور بزنس مین فتح اللہ گولن کو اس فوجی بغاوت کا ذمہ دار سمھجتی ہے اور ان کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جا چکےہیں۔ تاہم گولن ان تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان واضح کر چکےہیں کہ وہ مسلح افواج کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ ملکی آئین میں تبدیلی کے لئے بل پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کاکہنا تھاکہ مستقبل میں بری ،بحری اور فضائیہ کے سربراہان براہ راست وزیر خارجہ کو رپورٹ کریں گے۔

ترکی کےعوام کی جانب سے فوجی مداخلت کے خلاف جدو جہد کو تاریخی قرار دیاجارہا ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکہ سمیت مغربی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ترک حکومت ایسے اقدامات نہ اٹھا ئے جن سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہو۔