1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں مزید دو جرمن شہری گرفتار

11 ستمبر 2017

ترکی میں مزید دو جرمن شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت بارہ جرمن شہری سیاسی بنیادوں پر انقرہ حکومت کی قید میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2jjKO
Türkei Polizisten in Istanbul, Sultan-Ahmed-Moschee
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker

جرمن وزارت خارجہ کے مطابق ترک نژاد دو جرمن شہریوں کو استنبول سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان مارٹن شیفر کا درالحکومت برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ایسے واضح اشارے ملے ہیں کہ شادی شدہ جوڑے کو اتوار کے روز پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں سے ایک کو بعدازاں رہا کر دیا گیا لیکن اسے ترکی چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ ترک حکومت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق اس وقت ترک جیلوں میں کم از کم چھپن جرمن شہری قید ہیں اور ان میں سے کم از کم بارہ ایسے ہیں، جنہیں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی ترک پولیس نے انطالیہ میں ایک ترک نژاد جرمن جوڑے کو گرفتار کر لیا تھا۔ بعد ازاں خاتون کو تو رہا کر دیا گیا تھا لیکن مرد ابھی تک جیل میں ہے۔

ایردوآن کے حامیوں نے میری بیوی کو ہراساں کیا، جرمن وزیرخارجہ

جرمنی میں ترک شہری محتاط رہیں، انقرہ کی ہدایت سے نیا تناؤ

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا ترکی جانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بہت سے جرمن شہری ترکی میں صرف چھٹیاں گزارنے کے لیے گئے تھے لیکن یہ سفر ان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور متعدد افراد کے لیے یہ ڈراؤنا خواب ابھی تک جاری ہے۔‘‘

جن افراد کو ترکی میں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جا چکا ہے ان میں جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ کے ایک صحافی اور انسانی حقوق کے  ایک کارکن بھی شامل ہیں۔ ان دونوں جرمن شہریوں کو دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کا سامنا ہے۔ ترک حکومت ان گرفتاریوں سے متعلق برلن حکومت کو کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے ’کام سے کام رکھے‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ گرفتاریاں برلن حکومت کو مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ ترکی کے حوالے سے باقاعدہ سرکاری سطح پر سفری انتباہ جاری کرے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل ابھی تک ایسے اعلان کو مسترد کرتی آئی ہیں۔ جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ ترکی کے خلاف معاشی پابندیاں زیادہ کارآمد ثابت ہوں گی۔

دوسری جانب انقرہ حکومت کا مطالبہ ہے کہ جرمنی میں موجود گولن تحریک کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ انقرہ حکومت ایسے ترکوں کو سیاسی پناہ دینے سے بھی ناراض ہے، جو مبینہ طور پر گزشتہ برس ہونے والی فوجی بغاوت میں ملوث تھے۔