1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی میں ناکام بغاوت‘ معطّلی اور گرفتاریاں جاری

عدنان اسحاق17 جولائی 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ملک میں ناکام بغاوت کا الزام مسلم مبلغ فتح اللہ گؤلن پرعائد کیا ہے۔ دوسری جانب ایردوآن انتظامیہ نے ملکی فوج میں تطہیر کا عمل یا ’کلین اپ آپریشن‘ شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JQK8
تصویر: Reuters
ترک حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً تین ہزار ایسے فوجی اہلکاروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جن پر اس بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ پانچ جرنیلوں اور کرنل کے عہدے کے انتیس افسران کو بھی ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
انقرہ حکومت نے ستائیس سو ججوں کو بھی معطل کر دیا ہے، جو اندازوں کے مطابق ترکی کے تقریباً پندرہ ہزار ججوں کا بیس فیصد بنتا ہے۔ ججوں کی تنظیم کے سربراہ مصطفیٰ کاراداگ کے مطابق جن ججوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ صرف ایسے قانون دان نہیں ہیں، جن پر بغاوت میں شرکت کا شبہ ہے بلکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصطفیٰ کے بقول ان افراد کا قصور یہ ہے کہ وہ صدر ایردوآن کے مخالف اور ناقد ہیں۔
Bildkombo Fethullah Gülen / Tayyip Erdogan
تصویر: picture-alliance/Zaman/Reuters/M. Sezer
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا سے مسلمان مبلغ فتح اللہ گؤلن کے ترکی کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایردوآن کے مطابق گؤلن ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا مرکزی کردار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ترکی اور امریکا واقعی عسکری یا اسٹریٹیجک ساتھی ہیں، تو صدر باراک اوباما کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
گؤلن امریکی ریاست پینسلوانیا میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ 2013ء میں ایردوآن کے ساتھ شدید نوعیت کے اختلافات کے بعد وہ ترکی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ گؤلن نے ایردوآن کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کے بقول ممکن ہے کہ فوجی بغاوت کی یہ کوشش انقرہ حکومت ہی کے ایماء پر کی گئی ہو۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت گؤلن کی حوالگی کی درخواست کا جائزہ لے کر اس پر کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اس بغاوت کے حوالے سے اگر ترک حکومت نے امریکا کو ملوث کرنے کی کوشش کی یا اس تناظر میں کسی قسم کی قیاس آرائی کی، تو وہ دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔ اس دوران کیری نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی انتظامیہ کو اس بارے میں ابھی تک باقاعدہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔