1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں کریک ڈاؤن، جرمنی ترک باشندوں کی پناہ گاہ

عاطف بلوچ، روئٹرز
12 نومبر 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد جاری حکومتی کریک ڈاؤن کے تناظر میں جرمنی میں متعدد ترک باشندوں کو سیاسی پناہ دی گئی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد کرد باشندوں کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2SbX2
Deutschland Flüchtlinge kommen an der ZAA in Berlin an
تصویر: Getty Images/S. Gallup

ترکی میں رواں برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سخت حکومتی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ہفتے کے روز جرمنی دفتر برائے مہاجرت نے بتایا ہے کہ رواں برس ایسے ترک باشندوں کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے، جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و پناہ گزین (BAMF) کا کہنا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے ستمبر کے اختتام تک ترک باشندوں کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے چھ اعشاریہ آٹھ فیصد کو منظور کیا گیا ہے۔

وفاقی دفتر کے یہ اعداد و شمار ہفتے کے روز جرمن اخبار ڈی ویلٹ نے شائع کیے ہیں۔ وفاقی دفتر برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ ترکی کی شہریت رکھنے والے صرف پانچ اعشاریہ سات فیصد کرد باشندوں کو جرمنی میں پناہ دی گئی ہے، کیوں کہ ان افراد کی زندگیوں کو ان کے آبائی ملک میں خطرات کا سامنا تھا۔

ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد رجب طیب ایردوآن کے مخالف مختلف عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ایردوآن گزشتہ 13 برس سے ترکی پر حکومت کر رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اختیارات میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ترکی کے مغربی اتحادی ممالک میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

جولائی سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں بغاوت میں ملوث ہونے کے جرم میں یا تو گرفتار کیا جا چکا ہے، یا ان کی ملازمتوں سے برطرف۔ اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار افراد بغاوت کے الزام کے تحت جیل میں اور ان افراد کا تعلق فوج، عدلیہ، تدریس اور دیگر شعبہ ہائے جات زندگی سے ہے۔ ایردوآن حکومت کا الزام ہے کہ اس بغاوت کی منصوبہ بندی جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے کی تھی، تاہم گولن ان الزامات کو مستررد کرتے ہیں۔

Türkei Konflikt und Gewalt in Diyarbakir
ترکی میں بغاوت کے بعد ایردوآن مخالف عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہےتصویر: Reuters/S. Kayar

دریں اثناء ترکی میں کردوں کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے قریب دس ارکان پارلیمان کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے، جب کہ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ ترک شہریوں کو جرمنی اور یورپ میں پناہ دینے کے امکانات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں خاصی کمی لائی گئی ہے، اس کی وجہ وہ ڈیل ہے، جو مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین اور انقرہ حکومت کے درمیان رواں برس مارچ میں طے پائی تھی۔

اس ڈیل میں ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے۔ مگر جرمن اخبار ڈی ویلٹ کے مطابق ترکی میں جاری کریک ڈاؤن کے تناظر میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی ترک شہریوں کی تعداد میں ایک بار پھر کسی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔