1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: ناکام بغاوت، ایردوآن اور ’عدلیہ کی صفائی‘

شمشیر حیدر dpa/AP
6 مئی 2017

ترکی نے گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت سے تعلق کے شبے میں مزید سو سے زائد ججوں اور سرکاری وکلاء کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ ایردوآن حکومت نے تئیس ججوں اور وکلا کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2cWfG
Türkei Erdogan in Regierungspartei AKP zurückgekehrt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترک حکومت نے سرکاری اداروں میں ’صفائی کا عمل‘ جاری رکھتے ہوئے اب ملکی عدلیہ میں تعینات مزید ایک سو سات ججوں اور سرکاری وکلاء کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دو ججوں کو ان کی عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

پوٹن ایردوآن ملاقات، ساری کدُورتیں جاتی رہیں

گزشتہ برس ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن حکومت نے سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے ایسے تمام افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا عمل شروع کر رکھا ہے، جو حکومت کے مطابق گولن تحریک سے وابستہ ہیں یا فتح اللہ گولن کے حامی ہیں۔

ایردوآن اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کی اس کوشش کا الزام امریکا میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن، جو ماضی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے اہم اتحادی بھی رہے ہیں، ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

ملکی عدلیہ میں بھی ’صفائی‘ کا موجودہ عمل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق حکومت نے تئیس افراد کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے ہیں۔ ان تئیس افراد میں سے سترہ افراد ملکی عدلیہ میں جج کے عہدے پر فائز ہیں جب کہ باقی چھ سرکاری وکیل ہیں۔

ایردوآن نے بغاوت ناکام ہونے کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور تب سے لے کر اب تک سوا چار ہزار سے زائد ججوں اور استغاثہ کے وکیلوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے۔

علاوہ ازیں دیگر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ایک لاکھ سے زائد ترک شہریوں کو بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتے ہوئے ملازمتوں سے برخواست کیا جا چکا ہے۔ انقرہ حکومت گولن تحریک سے تعلق کے شبے میں سینتالیس ہزار سے بھی زیادہ سرکاری افسروں کو گرفتار کر کے ان سے تحقیقات بھی کر چکی ہے۔

ترکی میں سزائے موت سے متعلق ریفرنڈم ، جرمنی میں پولنگ ناممکن