1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کا نیٹو مشن سے دستبردار ہونے کا امکان

عابد حسین
1 دسمبر 2016

ایسے اشارے سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیرہ ایجیئن میں مہاجرین کو روکنے کے نیٹو مشن سے ترکی دستبردار ہو سکتا ہے۔ مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین کے ترکی اور یونان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2TZJs
Deutschland Wilhelmshafen Versorgungsschiff Bonn für die Ägäis
تصویر: picture-alliance/AP Photo/I. Wagner

یونان اور ترکی کی حکومتوں کے درمیان مہاجرین اور قبرصی بات چیت کے تناظر میں جو تناؤ پیدا ہے، اُس کا اثر بحیرہ ایجیئن میں نیٹو مشن پر پڑنے کا امکان ہے۔ اس باعث ترکی نیٹو کی بحری دستے کی کمان سے دستبردار بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر نیٹو نیول مشن کی کمان ترکی کو سونپ دی گئی تو ایتھنز حکومت کا سخت ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ کمان کی تبدیلی اگلے برس ہو گی۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے  برطانیہ کے وائس چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل گورڈن میسینجر کا کہنا ہے کہ ترکی اور یونان میں پائے جانے والی سفارتی و دوطرفہ تعلقات کی نزاکت کے تناظر میں امکان ہے کہ ترکی کے سینیئر کمانڈر کو نگرانی کے مشن کی کمان سونپنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ برطانوی جنرل کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو ترکی کے سینیئر کمانڈر کے نائب کو کسی ایک چھوٹے نگرانی کے منصوبے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔

Ägäis Ursula von der Leyen besucht Bundeswehrsoldaten in der Ägäis
بحیرہ ایجیئن میں نیٹو کے نگرانی مشن میں شامل جرمن فوجیوں کے ساتھ جرمن وزیر دفاعتصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایجیئن سمندر کے حساس علاقے میں ترکی کے کمانڈر کی موجودگی یونان کے لیے پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے۔ سفارتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس سمندر میں نیٹو کے بحری جہازوں کی نگرانی کے عمل سے انقرہ حکومت بظاہر عدم مسرت کی شکار ہے کیونکہ اس سمندری حدود پر یونان برسوں سے اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا چلا آ رہا ہے۔ بحیرہ ایجیئن کے کئی جزائر متنازعہ ہیں اور یونان کا تصرف ان پر زیادہ ہے۔

نیٹو کا نگرانی کا موجودہ مشن اگلے برس فروری میں ختم ہو رہا ہے اور امکان ہے کہ مہاجرین کا ایک نیا سیلاب اس سمندر سے گزر کر یونان کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ یورپی یونین کو اس صورت حال کا اندازہ ہے اور تشویش بھی ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان رواں برس مارچ میں مہاجرین کی ڈیل طے پائی تھی اور اِس کی مد میں اربوں یورو ترکی کی دیے جائیں گے تا کہ وہ مہاجرین کو ہر صورت میں اپنے ملک کی حدود میں روک کر رکھے۔

اس وقت بحیرہ ایجیئن میں نگرانی کرنے والے بحری دستے کی کمان جرمنی کے پاس ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ جرمن کمان میں تسلسل پیدا کیا جا سکتا ہے۔