1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کو غیر ملکی سیاحوں کی شدید کمی کا سامنا

عابد حسین27 مئی 2016

رواں برس اپریل تک ترکی جانے والے سیاحوں کی تعداد میں اٹھائیس فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ خاص طور پر روسی سیاحوں کی تعداد میں اسّی فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IvRu
استنبول کے قدیمی بازار کے زیورات انتہائی مشہور ہیںتصویر: picture-alliance/Pixsell/F. Brala

ترک حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سترہ برسوں میں ترکی کو غیر ملکی سیاحوں کی شدید ترین کمی کا سامنا ہے۔ یہ صورت حال ترکی کی مجموعی اقتصادیات کے لیے بھی شدید پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔

ترکی اور روس میں پائی جانے والی سفارتی کشیدگی بھی اہم وجہ ہے کیونکہ روس نے اپنے شہریوں کو ترکی کا سفر اختیار نہ کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ ماسکو کی اِس تلقین کی روشنی میں ترکی کی سیاحت کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد میں اسّی فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

Villa Tarabya Istanbul Türkei Bildergalerie EINSCHRÄNKUNG BEACHTEN
ایک ترکی ساحلتصویر: Sedat Mehder

ترکی کی اقتصادی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاحت سے ترکی کو حاصل ہونے والے سرمائے میں ایک چوتھائی کمی یقینی دکھائی دیتی ہے اور اِس کا حجم آٹھ بلین ڈالر کے مساوی بنتا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں کمی کی وجہ سکیورٹی کی خراب ہوتی صورت حال بھی ہے۔ شام میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور جنوب مشرقی علاقے کے کرد عسکریت پسندوں کی مسلح کارروائیوں نے مجموعی سکیورٹی کے حکومتی دعووں کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔

ہر سال مئی سے اگست تک کے مہینوں کو ترکی میں ٹورازم کے لیے ہائی سیزن تصور کیا جاتا ہے اور امن و امان کے تناظر میں مئی میں سیاحتوں کی کمی واضح طور پر دیکھی گئی ہے۔ اس عرصے میں یورپ کے چھٹیاں منانے والے سیاح خاص طور پر جوق در جوق جنوبی ساحلی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

ترکی کے فنانس بینک کے ریسرچر دانش جیجک کا خیال ہے کہ اپریل میں سیاحت کی صورت حال غیر معمولی طور پر کمزور تھی اور ہائی سیزن میں یہ کمزوری مزید واضح ہو کر سامنے آئے گی۔ آخری مرتبہ سن 1999 میں سیاحوں کی آمد میں کمی دیکھی گئی تھی جب کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے قائد کرد رہنما عبداللہ اوجلان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

Istanbul Hagia Sophia Kirche Moschee Museum
استنبول کی حاجیہ صوفیا کا میوزیمتصویر: Getty Images

ترکی میں ہر سال روسی سیاح ہر شہر میں گروپوں کی شکل میں دیکھے جاتے تھے جبکہ رواں برس ترک دوکاندار اپنے روسی گاہکوں کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک گئے ہیں۔ روایتی اعتبار سے جرمنی کے بعد سیاحوں کی سب سے بڑی تعداد روس سے ترک ساحلوں اور دوسرے دیدہ زیب مقامات کو دیکھنے آیا کرتی تھی۔

شامی تنازعے میں روس کے ایک جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد ماسکو اور انقرہ کے تعلقات میں شدید گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ باہمی تعلقات میں بگاڑ کے بعد روس نے اپنے شہریوں کو ترکی کے سفر سے گریز کا مشورہ دے رکھا ہے۔

جرمنی سے بھی ترکی جانے والے سیاحوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ترک حکومت کے لیے سیاحوں کی آمد میں کمی ایک بڑا دردِ سر ہے کیونکہ حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی سرمایہ کاری فرینڈلی پالیسیوں کے لیے بھی یہ صورت حال ایک بڑا اقتصادی دھچکا ثابت ہو سکتی ہے۔