1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی کے نئے دستور کا اسلامی ہونا ضروری ہے‘

26 اپریل 2016

ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر نے نئے دستور میں بنیادی تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ اسپیکر کے مطابق نئے دستور میں سیکولر اصولوں کو ہرگز شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1IciG
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعیل کہرامان نے نے کہا ہے کہ نئے دستور میں ترک قوم کا تشخص اور شناخت ایک اسلامی قوم کے طور پر ہونا ضروری ہے۔ ان کے خیال میں نئے دستور میں سیکولر قواعد و ضوابط کو قطعاً شامل نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ دستور کی اساس مذہب پر ہو۔ کہرامان نے ان خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا ہے جب سارے ملک میں نئے دستور میں تبدیلیوں سے متعلق بحث و تمحیص جاری ہے۔

ترک دستور میں تبدیلیوں کے حوالے سے یہ بھی زیر بحث ہے کہ منصبِ صدارت رسمی نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس منصب پر فائز شخصیت کو سربراہ مملکت و حکومت کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔ ترکی پر اِس وقت صدر رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد وہ اب صدر بن چکے ہیں۔ جب سے وہ صدر بنے ہیں تب سے وہ منصبِ صدارت کو مزید طاقتور بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایردوآن کا موجودہ منصب بنیادی طور پر دستوری ہے لیکن وہ ملک کے ہر انتظامی و سیاسی مسئلے بارے رائے دینا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا کہ وزیراعظم کا حق ہے۔

پیر کی شام اسپیکر اسماعیل کہرامان نے کہا کہ ترکی ایک اکثریتی مسلمان ملک ہے، جہاں تمام اہم مذہبی ایام پر سرکاری طور پر چھٹی منائی جاتی ہے اور ریاست اسلام کی بطور دین حمایت بھی کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ترک اسلامی قوم ہے اور اس باعث ایک نئے مذہبی دستور کی تخلیق ضروری ہے۔ اُن کے بیان کو ترک نیوز ایجنسی انادولُو نے رپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سیکولر اصولوں کی نئے دستور میں شمولیت کے تصور کو پُر زور انداز میں مسترد کر دیا۔

Türkei Parlamentspräsident Ismail Kahraman
ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعیل کہرامانتصویر: Imago/Xinhua/M. Kaya

یہ امر اہم ہے کہ حکمران قدامت پسندجسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے رہنما اور صدر رجب طیب ایردوآن کافی عرصے سے ترکی کے لیے ایک نئے دستور کے حوالے سے بحث کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ دستور سن 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد متعارف کروایا گیا تھا اور اِس کی شناخت سیکولر اصولوں پر متعین کی گئی تھی۔ یہ اصول جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے پیش کردہ تصور کے عکاس ہیں۔ اس دستور کی ایک انتہائی اہم شق میں درج ہے کہ ریپبلک آف ترکی ایک جمہوری، سیکولر اور فلاحی ریاست ہے جہاں قانون کی حکمران ہو گی۔ ابھی تک دستور کی سیکولر نظام والی شق کو ناقابلِ تنسیخ تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن اب نئی آوازیں اِس کے خلاف بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

ترکی کی مرکزی اپوزیشن پارٹی پیپلز ریپبلکن پارٹی ایک سیکولر ترکی کی حامی ہے۔ اِس جماعت کی بنیاد بھی اتاترک نے رکھی تھی۔ اِس پارٹی کے سربراہ کمال کلِچدار اولُو نے اسپیکر کے بیان کے جواب میں ٹویٹ کیا ہے کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے، اسی لیے یہاں مذہبی آزادی میسر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے تمام کلیدی رہنما بشمول کہرامان اور ایردوآن کالعدم رفاہ پارٹی کے اراکین ہیں۔ ترکی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت نے رفاہ پارٹی کو سن 1998 میں دستور کی سیکولر شقوں کے منافی نظریات رکھنے پر خلاف قانون قرار دے کر تحلیل کر دیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید