1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک دارالحکومت میں خود کُش حملہ، چونتیس افراد ہلاک

امجد علی14 مارچ 2016

تیرہ مارچ کی شام ترک دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے ایک خود کش کار بم حملے میں 34 افراد ہلاک اور 125 زخمی ہو گئے۔ شہر کے بارونق علاقے میں ہونے والے اس زور دار دھماکے کے نتیجے میں کئی مسافر بسیں اور دوکانیں تباہ ہو گئیں۔

https://p.dw.com/p/1ICcB
Türkei Anschlag in Ankara
دھماکا اتنا طاقتور تھا کہ اس کی آواز کئی کئی کلومیٹر دور تک سنی گئیتصویر: Reuters/M. Ozer

اتوار کی شام مقامی وقت کے مطابق چھ بج کر پنتالیس منٹ پر یہ دھماکا ایک پارک کی ہوئی اور بارود سے لدی ہوئی کار میں ہوا، جس میں انٹیلیجنس رپورٹوں کے مطابق ایک یا دو حملہ آور بھی بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے جان بوجھ کر ہدف کے طور پر ایک بارونق کاروباری مرکز کے نزدیک واقع اس مصروف بس سٹاپ کا انتخاب کیا تھا۔

اس دھماکے کے نتیجے میں اُنیس افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں تیس افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ چار نے ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔ انقرہ میں ایک جج نے اس حملے کے بارے میں آن لائن معلومات نشر کرنے پر اور خصوصاً سوشل میڈیا پر اس حملے کے حوالے سے تصاویر اور ویڈیوز پھیلانے پر پابندی لگا دی تھی۔

گزشتہ پانچ ماہ کے دوران انقرہ میں کیا جانے والا یہ تیسرا حملہ ہے، جس میں وزیر اعظم ہاؤس، پارلیمان اور غیر ملکی سفارت خانوں کے قریب کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ دھماکے ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں، جب ترکی کو نہ صرف دہشت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ بلکہ کرد باغیوں کی جانب سے بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی گزشتہ جمعے کو امریکی سفارت خانے نے وارننگ جاری کی تھی کہ ترک دارالحکومت کے مرکزی علاقے میں کسی حملے کا خطرہ ہے۔ اس وارننگ میں امریکی شہریوں کو وسطی انقرہ سے دور رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔

تاحال کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم وزیر اعظم احمد داؤد اولو کے مطابق تحقیقات ٹھوس انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایک بیان میں اولو کی جانب سے کہا گیا ہے:’’ہمارے پاس اس حملے میں ملوث دہشت گرد گروپ کے بارے میں ٹھوس معلومات ہیں۔ ہماری تحقیقات کے نتائج جلد سامنے آ جائیں گے اور ہم جلد از جلد عوام کو بھی ان نتائج سے آگاہ کر دیں گے۔‘‘

Türkei Anschlag in Ankara
بتایا گیا ہے کہ تیس افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ چار ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئےتصویر: Getty Images/AFP/E. Ucem

اُدھر کینبرا حکومت نے کہا ہے کہ جس وقت یہ بم پھٹا، ترکی میں تعینات آسٹریلیا کے سفر جیمز لارسن دھماکے کی جگہ سے صرف بیس میٹر کے فاصلے پر تھے۔

ایک مہینے سے بھی کم عرصے کے دوران انقرہ کے وسطی علاقے میں ہونے والا یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔ سترہ فروری کو ہونے والے ایک خود کُش حملے میں 29 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس حملے کی ذمہ داری کالعدم PKK سے قریبی وابستگی رکھنے والے گروپ کردستان فریڈم فالکنز (TAK) نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ یہ حملہ ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں ترک فوج کے آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا تھا۔ کیزیلے اسکوائر میں ہونے والے تازہ حملے کے حوالے سے جو ابتدائی تحقیقات کی گئی ہیں، اُن کے مطابق اس دھماکے کے پیچھے بھی کردستان ورکرز پارٹی PKK کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

انقرہ حکومت اور کرد باغیوں کے درمیان دو سالہ فائر بندی معاہدہ گزشتہ سال ناکام ہو گیا تھا اور گزشتہ سال دسمبر سے ترکی فوج کرد باغیوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔

Türkei Anschlag in Ankara
یہ حملہ جان بوجھ کر ایک مصروف ہسپتال کے قریب کیا گیا، اس کے نتیجے میں کئی بسیں جل کر خاکستر ہو گئیںتصویر: Getty Images/E. Sogut

صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ اس طرح کے حملے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکی کے عزم کو کمزور نہیں بلکہ مزید مستحکم بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنا ترکی کا بنیادی حق ہے، جسے حکومت ضرور استعمال کرے گی۔ امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید