1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک طالبِ علموں میں وطن واپس لوٹنے کا احساس

رپورٹ: عدنان اسحاق، ادارت: امجد علی4 مئی 2009

جرمنی میں زیر تعلیم اور تعلیم مکمل کرنے والے ترک نژاد طلبہ کی بڑی تعداد ترکی واپس جانا چاہتی ہے۔ ان نوجوانوں میں ترکی واپس لوٹنے کی سب سے بڑی وجہ اپنے وطن کے ساتھ گہری وابستگی کا احساس ہے

https://p.dw.com/p/HjSw
زیر تعلیم اور تعلیم مکمل کرنے والے ترک نژاد طلبہ کی بڑی تعداد ترکی واپس جانا چاہتی ہےتصویر: AP

اپنی شاندار یونیورسٹیوں کے باعث جرمنی غیرملکی طلبہ کی لئے ہمیشہ سے پرکشش رہا ہے۔ جرمنی کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم غیر ملکی طالب علموں کی شرح کوئی تیرہ فی صد بنتی ہے اور اس رجحان میں 1997 کے بعد سے بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

غیر ملکی طلبہ میں ایک بڑی تعداد ترک نوجوانوں کی ہے، جو یا تو تعلیم کی غرض سے سیدھے ترکی سے یہاں آئے یا پھر وہ اُن ترک تارکینِ وطن کی اولاد ہیں، جو یہاں برسوں سے مقیم ہیںتاہم سوال یہ ہے کہ اگر جرمنی اتنا ہی پُرکشش ہے تو پھر ترک نوجوان کیوں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں؟

Futureorg کا مطالعاتی جائزہ

گذشتہ دنوں جرمنی کی ایک تنظیم Futureorg کی جانب سے کرائے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ زیر تعلیم اور تعلیم مکمل کرنے والے ترک نژاد طلبہ کی بڑی تعداد ترکی واپس جانا چاہتی ہے۔ ان نوجوانوں میں ترکی واپس لوٹنے کی سب سے بڑی وجہ اپنے وطن کے ساتھ گہری وابستگی کا احساس ہے۔ وہ اپنے مادرِ وطن سے دوری کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

Universität in Berlin
اپنی شاندار یونیورسٹیوں کے باعث جرمنی غیرملکی طلبہ کی لئے ہمیشہ سے پرکشش رہا ہےتصویر: AP

Futureorg نامی تنظیم کے سربراہ کاموران سیزر کے مطابق اس جائزے کا آغاز 2008 میں کیا گیا تھا۔ جس میں آئن لائن کے ذریعے ترکی سے تعلق رکھنے والے ایسے 250 افراد سے رابطہ کیا گیا، جو اس وقت جرمنی میں زیر تعلیم ہیں یا تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔ کاموران نے مزید بتایا کہ ابتداء میں انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس سلسلے میں جن افرادکا انتخاب کیا گیا ہے، وہ اپنے وطن واپس لوٹنے کے بارے میں اتنے زیادہ جذباتی ہوں گے۔

نقل مکانی کی خواہش کیوں؟

اس جائزے میں جرمنی میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور یہاں سے بیرونِ ملک نقل مکانی کے خواہاں افراد کا موازنہ اُن ماہرینِ تعلیم سے کیا گیا، جو بدستور یہیں آباد رہتے ہوئے اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں معاشی اور پیشہ ورانہ محرکات پر روشنی ڈالی گئی، وہیں گھریلو حالات اور سیاسی پس منظر کو بھی تحقیق کا موضوع بنایا گیا۔

کاموران کے بقول ’اس اسٹڈی میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ تعیلم کے شعبے سے منسلک وہ اساتذہ اور طلبہ جو جرمنی سے باہر جانا چاہتے ہیں ، وہ سب اپنے اپنے شعبے میں ترقی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے میں اُن کا اقدام ایک قدرتی ردعمل ہے‘

کاموران سیزر سماجی امور کے محقق ہیں۔ ان کے خیال میں تعلیم کے شعبے سے منسلک افراد کی ترکی واپس جانے کی خواہش کا تعلق صرف جرمنی کی روزگار کی منڈی کی خراب صورتحال سے نہیں ہے۔ ان کے خیال میں میں دو زبانوں یعنی جرمن اور ترکی پر عبور اور کسی جرمن یونیورسٹی کی ڈگری کے ساتھ ان تارکین وطن نوجوانوں کو ترکی میں آجرین بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اِسی لئے وہاں اِن طلبہ کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کامورا ن کا کہنا ہے ’ایک طرف جرمنی کی روزگار کی منڈی پرپڑنے والا دباؤ انہیں واپس ترکی کی طرف دھکیل رہا ہے تو دوسری جانب ترکی میں ہونے والی اقتصاد ی ترقی بھی انہیں اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ اور یہی کشمکش اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے‘

Junge Türkinnen spielen Fußball
جائزے میں شریک افراد میں سے بہت سے صرف اس وجہ سے وطن واپس جانا چاہتے ہیں کہ انہیں جرمنی اپنے وطن کی طرح نہیں لگتاتصویر: AP

جرمن دارلحکومت برلن کی اوپن یونیورسٹی میں سیاسیات کی تعلیم حاصل کرنے والے سردار یزر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہر حال میں جرمنی میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یزر کا تعلق ترکی سے ہے لیکن اب وہ جرمن شہری ہیں۔ اُن کے خیال میں تارکین وطن کا پس منظر اُنہیں اِس معاشرے میں آگے بڑھنے کا خصوصی موقع فراہم کرتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’ برلن جیسے کثیرالثقافتی شہر میں، جو جرمن سیاست کا مرکز بھی ہے، ان کے لئے پیشہ ورانہ ترقی کے بہتر مواقع ہیں۔

سردار یزرکواس مطالعاتی جائزے کے نتائج پڑھ کر کافی حیرت ہوئی۔ وہ حیران ہیں کہ جرمنی سے نقل مکانی کا ارادہ رکھنے والے چالیس فیصد افراد کو جرمنی کی داخلی سیاست پر بھروسہ نہیں ہے۔ یزر طلبہ براردری میں سرگرم ہونے کی وجہ سے وہ جرمن معاشرے کے ساتھ ساتھ ترک باشندوں میں بھی اس سلسلے میں معلومات دیئے جانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اس رجحان کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

Futureorg نامی تنظیم کے سربراہ کاموران سیزر کے مطابق گھریلو پس منظر بھی نقل مکانی کر جانے کی ایک وجہ بنتا ہے۔

ان کے مطابق اس جائزے میں شریک افراد میں سے بہت سے صرف اس وجہ سے وطن واپس جانا چاہتے ہیں کہ انہیں جرمنی اپنے وطن کی طرح نہیں لگتا اور یہی مسئلہ ان کی خاندانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ خاص نکات کا ذکر کرتے ہوئے ہو ئے کاموران نے کہا کہ ’ جب والدین جرمنی میں زندگی سے غیرمطمئن ہوں تو بچے بھی ترکی واپس جانے پر تیار نظر آتے ہیں۔ جب والدین جرمنی میں رہنے کے فیصلے کو ایک غلطی سمجھتے ہوں تو بچوں میں واپس لوٹنے کے حوالے سے جذبات اور بھی زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ جب والدین صحیح طور سے جرمن زبان نہ بول سکتے ہوں تو نقل مکانی کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

والدین کے دوہری شہریت بھی زیر تعلیم نوجوانوں میں وطن واپس لوٹنے کی خواہش کی ایک وجہ ہے۔ کامورا ن سیزر کو یقین ہے کہ جرمن شہریت حاصل کرنے کے بعد تارکین وطن افراد میں جرمنی کو اپنا وطن سمجھنے کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔

موضوع کی مناسبت سے چند معلومات

جرمنی میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ میں سے 51 فیصد کا تعلق یورپی ممالک سے ہے۔ ایشیا سے آنے والے طلبہ تقریباً 32 فیصد بنتی ہے۔ افریقہ سے گیارہ فی صد جبکہ جنوبی اور شمالی امریکہ سے جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی شرح کوئی چھ فی صد بنتی ہے۔ اگر ملکوں کے حساب سے دیکھا جائے تو جرمنی میں سب سے زیادہ چینی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اِسکے بعد بلغاریہ اور پولینڈ کا نمبر آتا ہے۔