1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیم کا حصول، آخری سانس تک

صائمہ حیدر15 جون 2016

نیپال میں ایک بوڑھے شخص نے مشکلات کے باوجود تعلیم کا سفر جاری رکھا ہوا ہے اور اس طرح دیگر عمر رسیدہ افراد کے لیے بھی مثال قائم کی ہے۔ درگا کامی نام کے یہ بزرگ روز انہ ایک گھنٹے کی طویل مسافت طے کر کے اسکول پہنچتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J6pj
Nepal 68-jähriger Schüler Durga Kami
درگا کامی اپنی تعلیم مکمل کرنے ہفتے میں چھ دن اسکول جاتے ہیںتصویر: Reuters/N. Chitrakar

نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک عمر رسیدہ شخص درگا کامی اسکول جانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی داڑھی کو کنگھی کرتے ہیں، پھر اپنا یونیفارم پہن کر اپنی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قريب ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے ایک نئے تعلیمی دن کا آغاز کرتے ہیں۔

غربت کے باعث درگا کامی بچپن میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تھے اور ان کا استاد بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ لیکن اب 68 برس کی عمر میں، جب کامی چھ بچوں کے باپ اور آٹھ بچوں کے دادا بن چکے ہیں، وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ہفتے میں چھ دن اسکول جاتے ہیں۔

اس طرح تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ درگا کامی کو اپنی بیوی کی موت کے بعد گھر میں تنہائی کی زندگی سے نجات بھی مل گئی ہے۔ شری کلا بھائی رب ہائرسیکنڈری اسکول میں داخل ہوتے ہوئے کامی کو خوش آمدید کہتا ہوا 200 کے لگ بھگ بچوں کا شوروغل ان کے ایک کمرے کے گھر کے ماحول کے بالکل برعکس ہے۔

Nepal 68-jähriger Schüler Durga Kami
کامی کے ہم جماعت چودہ سے پندرہ سال کے طالب علم ہیںتصویر: Reuters/N. Chitrakar

کامی نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے مغرب میں تقریبا 250 کلومیٹر دورسائیانگجا کے ضلعے کے رہائشی ہیں۔ وہ ایک کمرے کے الگ تھلگ گھر میں رہتے ہیں جس کی چھت بارشوں میں ٹپکتی ہے اور انہیں بار بار بجلی کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کامی، جو کہ نیپال کے عمر رسیدہ طلبا میں سے ایک ہیں، نے اپنے کمرہ جماعت میں، جہاں وہ 14 سے 15 سال کے طالب علموں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے غموں کو بھلانے کے لیے اسکول جاتا ہوں۔‘‘ کامی کے بچے اپنے والد کا پہاڑی پر قائم گھر چھوڑ چکے ہیں۔ سب سے پہلے کامی نے ’ کہارے پرائمری اسکول ‘ میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے سات اورآٹھ سال کے بچوں کے ساتھ بنیادی طور پر لکھنا اور پڑھنا سیکھا اور اس کے بعد 11 برس کی عمر کے طالب علموں کے ساتھ پانچویں جماعت تک پڑھائی کی۔

تب شری کلا بھائی رب اسکول میں پڑھانے والے ایک استاد ڈی آر کوئرالہ نے کامی کو اپنے اسکول میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی اور انہوں نے ہی کامی کو اسٹیشنری کا سامان اور یونیفارم بھی فراہم کیا جس میں بھورے رنگ کی پتلون، نیلی دھاری دھار ٹائی اورسفید قمیض شامل تھی۔ اسکول سے ملنے والے وظیفے میں خوراک شامل نہیں ہے، اس لیے کامی کو رات تک صبح کیے گئے ناشتے پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے جو ’ گندرک ‘ نامی ایک طرح کی سبز رنگت والی خمیر سبزی اور چاولوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دسویں کلاس کے طالب علم کامی کے تمام ہم جماعت اسے ’با‘ کے نام سے بلاتے ہیں جس کے معنی نیپالی زبان میں والد کے ہیں۔ لیکن کامی عمر رسیدگی کے باوجود اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ والی بال سمیت ہر طرح کی سر گرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

Nepal 68-jähriger Schüler Durga Kami
اڑسٹھ سالہ درگا کامی اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ والی بال سمیت ہر طرح کی سر گرمیوں میں حصہ لیتے ہیںتصویر: Reuters/N. Chitrakar

کامی کے چودہ سالہ ہم جماعت ساگر تھاپا کا کہنا تھا، ’’میں سوچا کرتا تھا کہ یہ عمر رسیدہ شخص کیوں ہمارے ساتھ پڑھنے کے لیے اسکول آتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ان کی صحبت اچھی لگنے لگی۔ وہ ہماری نسبت پڑھائی میں کچھ کمزور ہیں لیکن ہم اس میں ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

کامی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی آخری سانس تک علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ ان کا اس عمر میں اسکول جانا دیگر بوڑھے افراد کو بھی تعلیم کی طرف مائل کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ جب وہ مجھ جیسے بوڑھے شخص کو سفید داڑھی کے ساتھ اسکول جاتے دیکھیں گے تو ان کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔‘‘