1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توانائی کا ممکنہ بحران

11 نومبر 2009

تیل اور گیس میں کھپت کے ساتھ اِن کے زیر مین ذخائر میں کمی کے تناظر میں بین الاقوامی توانائی نے خبر دار کیا ہے کہ اگر متبادل ذرائع کی دریافت ممکن نہ ہو سکی تو تیل اور گیس کی قیمتیں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/KTcE
تصویر: AP

بین الاقوامی توانائی ایجنسی IAE نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کوپن ہیگن سمٹ میں بہر صورت کسی سمجھوتے کو حتمی شکل دے وگرنہ سن 2030 تک تیل اور گیس کی قیمتیں دوگنا ہو جانے سے اقوام عالم کو ایک نئے مالی بحران کا سامنا ہو گا۔ توانائی ایجنسی کے مطابق اگر تیل اور گیس کی قیمتوں کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا تو زندگی کے ہر شعبے میں حالات مشکل تر ہونے سے عام انسانوں کی زندگی انتہائی مشکل ہو سکتی ہے۔ IAE کا یہ اندازہ اس جائزے پر مبنی ہے جس کے مطابق عالمی سطح پر تیل اور گیس کی طلب میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

عالمی توانائی ایجنسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوبواو تناکا نے اہم ملکوں کی حکومتوں پر واضح کیا ہے کہ کوپن ہیگن کے سربراہی اجلاس میں کسی سمجھوتے کا مقصد اقوام عالم کو نئی مشکلات سے بچانے کے مترادف ہو گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور ان کے استعمال کو بھی انتہائی اہم قرار دیا۔ تناکا کے خیال میں جوہری توانائی بھی خاصی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کا باعث نہیں بنتی۔

Ölförderung in Venezuela
تیل کی پیداوار کا ایک مقامتصویر: AP

دوسری جانب کئی دوسرے سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کوپن ہیگن میں اگلے ماہ ہونے والی سربراہی کانفرنس میں کسی نئے عالمی سمجھوتے کے طے پا جانے کے امکانات کم ہیں کیونکہ مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بننے والے بڑے ملک، خاص طور پر امریکہ، بھارت اور چین ابھی تک خاموش ہیں۔ ان ریاستوں کی جانب سے مثبت پیش رفت بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں اوباما انتظامیہ ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں خاصی سرگرم نظر آتی ہے۔ امریکی سینیٹ میں کوپن ہیگن کانفرنس سے قبل کسی فریم ورک کو حتمی شکل دینے کا عندیہ سینیٹر جان کیری کی زبانی سامنے آ چکا ہے۔ منگل کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ملکی پارلیمنٹ میں ماحولیات پر اپنے پالیسی بیان میں واضح کیا کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے یورپی یونین کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہے، تاہم یہی بات امریکہ، چین اور بھارت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ میرکل نے کہا کہ وہ ان ملکوں کو اپنا موقف واضح کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ذاتی طور پر کوششی‍ں کریں گی اور اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونے کی صورت میں ہی اس سال کے اواخر میں کوپن ہیگن کانفرنس میں شرکت کریں گی۔

IAE Chef Nobuo Tanaka bei Manuel Barroso in Brüssel
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے سربراہ تناکا، یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف سولانہ کے ساتھ: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

عالمی توانائی ایجنسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوبواو تناکا کے خیال میں وقت آن پہنچا ہے کہ حکومتوں کے سربراہان ماحول سے متعلق اپنی ترجیحات کو حتمی شکل دیں، کیونکہ اسی سے ہی تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پیدا ہونے والے ایک نئے بحران کو روکا جا سکتا ہے۔

تیل اور گیس کے کم تر استعمال اور متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے سے ہی اس ممکنہ بحرانی صورت حال کو کنٹرول کرنا آسان ہو گا۔ ان کا مزید خیال ہے کہ عالمی سطح پر مالیاتی بحران کے بعد صنعتی اور اقتصادی شرح پیداوار میں مسلسل تحریک سے تیل اور گیس کی کھپت میں کمی کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔

عالمی توانائی ایجنسی کی ماہر اقتصادیات فیتھ بیرول کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں حکومتوں نے اپنی ترجیحات تبدیل نہ کیں تومختلف اقتصادی اور دوسرے مسائل کے تناظر میں تیل اور گیس کی مانگ میں ڈھائی فیصد تک اضافہ خارج از امکان نہیں ہو گا۔ اگر یہ صورت حال جوں کی توں رہی تو ملکوں کی اقتصادیات کو ایک بار پھر مالی پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں تیل اور گیس پر اٹھنے والا اضافی خرچہ جہاں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، وہیں غریب ملکوں کے لئے یہ کمر توڑ قوت کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔

توانائی کے بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ سن 2030 تک اٹھائیس بڑے صنعتی ملکوں کی تیل کی ضروریات 106 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ جانے کا قوی امکان ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو خام تیل کے فی بیرل قیمت 150 ڈالر سے کہیں زیادہ سطح تک بلند ہو سکتی ہے۔ خام تیل کے فی بیرل قیمت گزشتہ برس ایک سو پچاس ڈالر کی حد تجاوز کر گئی تھی، جب بڑی اقتصادیات کی حامل ریاستیں عالمی کساد بازی کے چنگل میں تھیں۔ اگر صورت حال بہتر نہ ہوئی تو سن دو ہزار پندرہ تک تیل کی فی بیرل قیمت 115 ڈالر پر ٹھہر جائے گی اور سن 2030 میں یہ قیمت 190 ڈالر کی حد کو چھونے لگے گی۔

تیل اور گیس کی انتہائی زیادہ قیمتیں غربت اور بھوک میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں، ان کے علاج اور ادویات سازی کے لئے مختص خصوصی فنڈز میں کمی کا باعث بھی ہوں گی۔ یوں غریب ملکوں میں ادویات کی کمی کی صورت میں بیماریوں کا دائرہ پھیل جانے سے انسانی صحت کو کئی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک