1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Wahlen Thailand

4 جولائی 2011

تھائی لینڈ کے عام الیکشن میں کامیابی اپوزیشن کو ملی ہے۔ بہت طاقتور ملکی افواج نے انتخابی نتائج تسلیم کر لیے ہیں تاہم ڈوئچے ویلے شعبہء ایشیا کی سربراہ سِبّلے گولٹے شروئڈر کے مطابق تھائی لینڈ میں جمہوریت تاحال خطرے میں ہے۔

https://p.dw.com/p/11omK
تھائی الیکشن کے دوران قطار بنائے ووٹرتصویر: AP

تھائی لینڈ نے گزشتہ برسوں کے دوران پوری دنیا کو سیاسی طور پر ایک منقسم ریاست کی تصویر پیش کی۔ عالمی برادری نے ’مسکراہٹوں کی سرزمین‘ کہلانے والے اس ملک میں اقتدار کی شدید کشمکش کا مشاہدہ کیا۔ دو سیاسی دھڑے، جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔

ایک طرف باوسائل شہری اشرافیہ کی نمائندہ موجودہ حکومتی جماعت اور دوسری طرف ملک کی غریب آبادی کی نمائندگی کرنے والی اپوزیشن، جس نے حالیہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں سے اب تک کی حکومتی جماعت کا علامتی رنگ زرد ہے، اور اس کے سیاسی کارکن ’ییلو شرٹس‘ کہلاتے ہیں۔ دوسری جماعت، جس نے اتوار کے الیکشن جیتے ہیں، کے کارکن اپنی سرخ قمیضوں کے وجہ سے ’ریڈ شرٹس‘ کہلاتے ہیں۔

Thailand Wahlen Puea Thai Yingluck Shinawatra Rothemden Flash-Galerie
یِنگلُک شناواترا اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: dapd

تھائی لینڈ میں دیہی علاقوں کی مجموعی آبادی شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کے شہریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لیے ویک اینڈ پر ہونے والے الیکشن کے نتائج کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔

تھائی انتخابات میں کسی جماعت کو اکثریت کوئی پہلی مرتبہ نہیں ملی۔ لیکن ریڈ شرٹس کی اکثریت کو ماضی میں تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح خود کو ڈیموکریٹک کہلوانے والی ییلو شرٹس نے تو ماضی میں انتخابی قوانین میں ترمیم کے مطالبے بھی کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شہری، ایک ووٹ‘ کا قانون بدلنا چاہیے، جو کہ جمہوری اصولوں کی سراسر نفی ہے۔

لیکن بہت طاقتور تھائی فوج کی مدد سے یہ جماعت اقتدار میں رہنے میں کامیاب رہی اور اس نے اپنے سب سے بڑے اور متنازعہ ہو جانے والے حریف، سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا کو بدعنوانی کے الزامات لگا کر ملک سے باہر چلے جانے پر مجبور بھی کر دیا۔

اب تھاکسن شناواترا ہزاروں میل دور دبئی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن کی فاتح ان کی چھوٹی بہن ینگلُک شناواترا ہیں۔ یعنی اب پھر ایک طرف شناواترا اور دوسری طرف ملکی فوج اور بادشاہت کے حامی۔ تھائی لینڈ کی جدید تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جمہوری طور پر منتخب اکثریت کو حکومت سازی سے روک دیا۔

NO FLASH Thailand Abhisit Vejjajiva TV-Ansprache
موجودہ وزیر اعظم ویجاجیوا جو پیر کے روز مستعفی ہو گئےتصویر: picture-alliance/dpa

کیا تھائی لینڈ میں اب دوبارہ ایسا ہی ہو گا؟ اس کا انحصار کئی مختلف عوامل پر ہے۔ مثلاﹰ یہ کہ ینگلُک شناواترا کتنی جلدی سیاسی طور پر اپنے بھائی کے سائے سے باہر نکلتی ہیں؟ یا یہ کہ آیا اب تھاکسن واپس وطن لوٹ آتے ہیں؟ ایک اہم حقیقت یہ بھی ہو گی کہ تھائی لینڈ کی فوج عملاﹰ کتنی زیادہ جمہوریت پر آمادہ ہو گی؟

سیاسی طور پر نا تجربہ کار ینگلُک شناواترا کی کوشش ہے کہ وہ اپوزیشن کی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں اور یوں اپنی حکومت کی عوامی بنیاد کو وسیع تر بنائیں۔ یہ اچھی سوچ ہے۔ لیکن ان کا ایک بہت اہم کام یہ بھی ہو گا کہ ملکی فوج میں اصلاحات لائی جائیں اور فوج سیاسی حکومت کی برتری کو تسلیم کرے۔

ایسا ہونا چاہیے۔ نئی حکومت اور نئی اپوزیشن کو تھائی لینڈ میں اپنا اپنا آئینی کردار اچھی طرح نبھانا ہو گا ورنہ دنیا کو بنکاک کی سڑکوں پر ایک بار پھر ریڈ شرٹس اور ییلو شرٹس کا طویل تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

تبصرہ: سبِلّے گولٹے شروئڈر

ترجمہ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں