1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی لینڈ کا بحران

Bernd Musch-Borowska /افصال حسین3 دسمبر 2008

تھائی لینڈ کے بحران کا تٰفصیلی جائزہ، سنگا پور سے Bernd Musch-Borowska کا لکھا تبصرہ

https://p.dw.com/p/G8Zl
یہ احتجاج پولیس کی مداخلت کے بغیر پر امن طریقے سے اپنے انجام کو پہنچا۔تصویر: AP

تھائی لینڈ کی آئینی عدالت نےحکومتی پارٹی کوتحلیل کر دیا۔ وزیراعظم سومچائی وونگ سا وات مستعفی ہو چکے ہیں۔ بنکاک کے ہوائی اڈوں کا محاصرہ کرنے والے مظاہرین نے محاصرہ ختم کر دیا۔ یہ احتجاج پولیس کی مداخلت کے بغیر پر امن طریقے سے اپنے انجام کو پہنچا۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر انسان سوچ سکتا ہے کہ تھائی لینڈ کا مسلئہ حل ہو گیا ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔ پارلیمان کے اندر کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہاں طاقت کا توازن ویسا ہی ہے جیسے پہلے تھا۔ اب اپوزیشن جماعت پی اے ڈی کے حامی اپنے گھروں میں پہنچ کر مہینوں کے احتجاجی مظاہروں کی تھکن اتارنے کے بعد جب سنبھلیں گے، تو انہیں پتہ چلے گا کہ وہی سیاسی دھڑا پھر سے اقتدار پر فائز ہے۔ اس کے بعد ان کا ردعمل کیا ہو گا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

حکومتی مخالفین کے موقف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے تقویت ملی۔ تاہم بنکاک کے ہوائی اڈوں کا محاصرہ ملکی عوام کے ساتھ زیادتی اور بے انصافی کے مترادف تھا۔ کیوں کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاحتی شعبے کو پہنچا۔ اب یقینی طور پر اگلے برسوں کے دوران تھائی لینڈ کا رخ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں واضع کمی آئیگی۔ اور اس شعبے میں روزگار کے لاکھوں مواقع ختم ہو جائیں گے۔

آئینی عدالت کو کیا اب پتہ چلا ہے کہ دھاندلی کرنے والی سیاسی جماعتیں ملک کے جمہوری نظام کے لئے خطرہ ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ووٹ خریدنے کا الزام سنگین ہے، لیکن اگر درست طریقے سے چھان بین کی جائے تو سبھی پارٹیاں اس طرح کے ہتھکنڈوں میں ملوث ثابت ہو سکتی ہیں۔ اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ ایک طرف تھائی لینڈ کے غریب دیہی علاقے ہیں تو دوسری طرف شہر ہیں جہاں دولت کی فراوانی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی ارب پتی اپنے پیسوں کے زور پر پارلیمان کے اندر اکثریت حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے معاشرے میں محض چند سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنا کافی نہیں بلکہ دورس نتائج کی حامل اصلاحات ضروری ہیں۔

تھائی لینڈ میں ایک طرف شاہی خاندان سمیت اشرافیہ طبقہ ہے، جسے اپنی سیاسی بالا دستی چھن جانے کا خطرہ ہے تو دوسری طرف عام لوگ ہیں، جو عدالت کے فیصلے کے باوجود شکست ماننے پر تیار نہیں۔

ہوائی اڈوں کے مظاہرین کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کوئی شخص نام لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ ملکی قانون کی رو سے شاہی خاندان پر انگلی اٹھانے والے کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔

کل منگل کے روز سالانہ فوجی پریڈ کے موقع پر تھائی لینڈ کے بادشاہ نے عوام سےخطاب کیا۔ لیکن مہینوں سے جاری سیاسی بحران پر انہوں نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔

٫٫تھائی لینڈ میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو٫٫