1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین سوال تین جواب

12 مئی 2017

مہاجرین کے بحران میں گِھری جرمن حکومت نے ايک ايسی نئی ويب سائٹ لانچ کی ہے، جس میں اُن پناہ گزينوں کی رہنمائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو رضا کارانہ طور پر اپنے اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2cs2S
Syrien | Flüchtlingslager in Hasakeh
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

سوال: جرمن حکومت کو آخر اس ویب سائٹ کو شروع کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

گزشتہ کچھ عرصے سے جرمنی میں موجود پناہ کے متلاشی ایسے افراد کی اُن کے آبائی ممالک واپسی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جن کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ اب جرمن حکومت اس کوشش میں ہے کہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں مناسب معلومات فراہم کی جائیں تاکہ وہ کسی مشکل میں پڑے بغیر آسانی سے اپنے اپنے ممالک واپس چلے جائیں۔ اسی مقصد کی خاطر یہ ویب سائٹ بنائی گئی ہے۔www.returningfromgermany.de کے نام سے بنائی گئی اس ويب سائٹ پر رضاکارانہ ملک بدری کے ليے مشاورت کے مراکز، وطن واپسی کے امکانات اور ممکنہ مالی امداد کے بارے مفصل معلومات دستياب ہيں۔

یہ امر اہم ہے کہ ایسے افراد جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، وہ جلد یا بدیر جرمنی سے ملک بدر کر دیے جائیں گے، اس لیے بہتر ہے کہ یہ لوگ جرمن حکومت سے تعاون کرتے ہوئے ممکنہ مالی امداد حاصل کریں اور رضا کارانہ طور پر واپس چلے جائیں۔

جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد مزید کم

جرمنی: پناہ کی درخواستوں کی دوبارہ چھان بین

جرمن شہری زیادہ جرائم کرتے ہیں یا مہاجرین

سوال: جرمنی سے رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی شرح کیا ہے اور کیا اس میں پاکستانی بھی شامل ہیں؟

جواب: اگر اعداد و شمار سے پرکھا جائے تو عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق سن دو ہزار سولہ یعنی گزشتہ برس کے دوران تقریبا چوّن ہزار تارکین وطن رضا کارانہ طور پر جرمنی سے چلے گئے تھے۔ تاہم رواں برس اپریل کے اختتام تک یہ تعداد تقریبا گیارہ ہزار بنتی ہے۔

یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس کے پہلے چار ماہ میں رضاکارانہ طور پر اپنی ملک بدری قبول کرنے والے مہاجرین کی شرح میں چالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ جرمن حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھی جرمنی میں کم از کم تیس ہزار ایسے تارکین وطن اور مہاجرین موجود ہیں، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

جرمن وزارت داخلہ واضح کر چکی ہے کہ ان افراد کو فوری طور پر جرمنی چھوڑ کر چلے جانا چاہیے۔ اچھا، ان تارکین وطن میں پاکستانی بھی شامل ہیں، لیکن ان میں زیادہ تعداد بلقان کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کی ہے، جو اقتصادی مقاصد کے تحت نقل مکانی کرتے ہوئے جرمنی پہنچے تھے۔ اس کے علاوہ ان میں افغان باشندوں کے ساتھ ساتھ کچھ افریقی ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔

سوال: جرمن حکومت اسی سلسلے میں پہلے بھی اقدامات کر چکی ہے۔ کیا اب اس ویب سائٹ کے متعارف کرانے سے صورتحال بہتر ہو سکے گی؟

جواب: برلن حکومت اس بحران کے تناظر میں کئی اقدامات کر چکی ہے اور ایسے افراد کی واپسی کی کوشش بھی کررہی ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی آنے والے ایسے افراد کے پاس مناسب معلومات کی بہتات نہیں اور وہ اکثر غلط معلومات کی وجہ سے مشکلات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی سے ناکام درخواست دہندگان کی ملک بدری نہ صرف پيچيدہ بلکہ کافی مہنگا عمل بھی ہے۔

تاہم پھر بھی کوشش جاری ہے کہ ایسے غیر ملکیوں کو زیادہ سے زیادہ درست معلومات فراہم کی جائیں۔ فی الحال یہ ویب سائٹ صرف انگریزی اور جرمن زبان میں ہے لیکن جلد ہی عربی سمیت دیگر زبانوں میں بھی اس ویب سائٹ پر معلومات دستیاب ہوں گی۔

ايک مطالعے کے مطابق پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی ميں لگ بھگ چودہ ہزار مہاجرين نے رضاکارانہ بنيادوں پر جرمنی سے اپنے اپنے آبائی ممالک کا رخ کيا تھا۔ رواں سال اسی عرصے کے دوران يہ تعداد ساڑھے آٹھ ہزار کے قريب رہی۔ تو بات پھر وہی ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کو معلومات تک رسائی ہونا چاہیے۔ اس مقصد کی خاطر ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ کیا کیا جانا چاہیے؟