1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس کی سیاسی صورتحال ہنوز غیر واضح

10 جون 2011

تیونس میں بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی بساط نئے سرے سے بچھے گی۔ گزشتہ جنوری سے 60 نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/11YLh
تیونس میں عوامی مظاہرہتصویر: picture alliance/dpa

ملکی سیاسی منظر نامے پر کون سے نئے رجحانات دیکھنے میں آرہے ہیں اور کونسی سیاسی قوت سب سے مضبوط ہو سکتی ہے اس بارے میں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ تیونس کی سیاسی صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ وہاں کے آئندہ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں جاری بحث کا بغور جائزہ لیا جائے۔ تیونس کے ان پہلے آئنی انتخابات کی تاریخ آئنی کنونش کے ذریعے طے ہونا تھی۔ اس الیکشن کو بنیادی طور پر آئندہ ماہ یعنی جولائی میں منعقد ہونا چاہیے۔ تاہم آزاد انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ جولائی میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اس کے بجائے کمیشن نے اکتوبر میں انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی، جسے حکومت نے رد کر دیا تھا۔ اُس کا اسرار تھا کہ الیکشن جولائی میں ہی ہونے چاہئیں۔ بعدازاں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن ٹھیک ہی کہتا تھا کہ جولائی میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے، گزشتہ روز یعنی آٹھ جون کو تیونس کے انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کر ہی دیا گیا۔ آئندہ نوٹس تک یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ الیکشن 23 اکتوبر کو ہوں گے۔

Akropolium Revolutionskunst Karthago Tunesien Tourismus
سیاسی بحران کے سبب تیونس کے سیاحتی شعبے کو بہت نقصان پہنچا ہےتصویر: Thomas Rassloff

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیونس کی صورتحال کس حد تک غیر واضح ہے۔ اس بارے میں تیونس کے قانون کے شعبے کے ایک پروفیسر اور میڈیٹرینین اسٹیڈیز کے سینٹر کے سربراہ احمد ڈررس کہتے ہیں۔’اس خطے میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ تیونس کے انتخابات التواء کا شکار رہیں۔ محض ذاتی وجوہات کی بنا پر۔ ان کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سابق حکومت پھر سے اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہی ہے‘۔

یہ خیال بے بنیاد نہیں ہے۔ تیونس میں گزشتہ مہینوں کے دوران پُرتشدد مظاہروں میں حصہ لینے والے زیادہ تر نوجوان تھے، جنہیں چند نوٹ دے کر چُپ رہنے کو کہہ دیا گیا۔ تاہم جو حقیقت میں حکومت مخالف مظاہرین ہیں وہ جنوری کے ماہ سے اپنی حکومت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دراصل سڑکوں پر نکلنے والوں ہی کا دباؤ تھا، جس کے تحت سال رواں کے اوائل میں عبوری حکومت کے متعدد وزراء دوبارہ مستعٰفی ہو گئے تھے۔ ان میں وہ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے بن علی کے دور میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں میں سے ایک عبوری حکومت کے پہلے سربراہ محمود غنوشی بھی تھے جنہوں نے گزشتہ فروری کے اواخر میں حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

Chef der Nahda Partei Rachid Al-Ghannoushi
النھضہ پارٹی کے سربراہتصویر: DW

تیونس کی سیاسی جماعتوں کی بڑی تعداد کے بارے میں جرمنی کی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ رالف ملسر کا کہنا ہے کہ یہ عوام کے لیے نہیات مبہم اور پریشان کُن ہے۔ وہ کہتے ہیں ’تیونسی باشندے سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نہیں پہچانتے۔ تاہم وہ سابق حکومتی جماعت آر سی ڈی اور اپوزیشن پارٹی النھضہ سے تعلق رکھنے والے اسلام پسندوں کو جانتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں جانتے۔ بہت سی سیاسی جماعتوں کے بارے میں تو کسی نے کبھی کچھ نہیں سنا۔ خاص طور سے ان کے چوٹی کے اہلکاروں کے بارے میں‘۔ تیونس میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی ہیں تاہم یہ بُری طرح بٹی ہوئی ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں