1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ثابت کریں کہ آپ جعلی مہاجر نہیں، ورنہ آپ کا کھیل ختم‘

شمشیر حیدر AFP
21 مئی 2017

آسٹریلوی حکومت نے کشتیوں کے ذریعے اپنی سرزمین تک پہنچنے والے ساڑھے سات ہزار تارکین وطن سے کہا ہے کہ وہ اکتوبر تک یہ ثابت کریں کہ وہ ’جعلی مہاجر‘ نہیں ہیں ورنہ انہیں اپنی ملک بدری کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2dJTh
Australien Flüchtlinge Insel Nauru 2001
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Rycroft

سمندری راستوں کے ذریعے سیاسی پناہ کی تلاش میں آسٹریلیا پہنچنے والے ساڑھے سات ہزار سے زائد تارکین وطن کو یہ ثابت کرنے کے لیے رواں برس اکتوبر تک کی مدت دی گئی ہے کہ وہ واقعی پناہ کے حقدار ہیں اور ’جعلی مہاجر‘ نہیں ہیں۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی سڈنی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان تارکین وطن کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ اکتوبر کے مہینے تک خود کو حقیقی مہاجر ثابت نہ کر پائے تو انہیں ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیج دیا جائے گا۔

آسٹریلیا میں سن 2013 میں کنزرویٹیو پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا طریقہ کار کافی سخت کیا جا چکا ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل کے پانچ برسوں کے دوران ملک میں پچاس ہزار سے زائد تارکین وطن پرخطر سمندری راستوں کے ذریعے آسٹریلیا پہنچے اور انہوں نے حکام کو سیاسی پناہ کے حصول کے لیے اپنی درخواستیں دیں۔

گزشتہ دس برسوں کے دوران افغانستان، پاکستان، سری لنکا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں تارکین وطن آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں سمندر برد ہو کر ہلاک بھی ہوئے۔

آسٹریلوی حکام زیادہ تر تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنا چکے ہیں لیکن حکام کے مطابق ساڑھے سات ہزار سے زائد پناہ کے متلاشی افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے برسوں بعد بھی ابھی تک حکام کو نہ تو اپنی حقیقی شناخت اور قومیت سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں اور نہ ہی وہ حکام کی جانب سے پوچھے گئے دیگر سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر حکام کو شبہ ہے کہ وہ ’حقیقی مہاجر‘ نہیں ہیں۔

امیگریشن امور کے آسٹریلوی وزیر پیٹر ڈوٹون نے ایسے تارکین وطن کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اس برس یکم اکتوبر تک حکام کے ایسے ثبوت فراہم نہ کیے کہ وہ واقعی پناہ کے حقدار ہیں تو انہیں نہ صرف آسٹریلیا سے ملک بدر کر دیا جائے گا بلکہ ان کے دوبارہ اس ملک میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔

آسٹریلوی وزیر کا کہنا تھا، ’’یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور ٹیکس ادا کرنے والے آسٹریلوی شہریوں کے لاکھوں ڈالر ان تارکین وطن پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے عوام کے ٹیکس کے پیسے یوں لوٹ سکتے ہیں تو ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ ہم پناہ کے حقدار حقیقی مہاجرین کی مدد کرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن جو لوگ ہمارے فلاحی نظام کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور پناہ کی درخواستوں کے ساتھ کوئی ثبوت پیش نہیں کر رہے، ایسے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔‘‘

آسٹریلوی وزیر کے اس بیان کے بعد ملک میں انسانی حقوق اور مہاجرین کی مدد میں سرگرم تنظیموں نے نئے حکومتی اقدامات کی مذمت کی ہے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے