1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جامہ تلاشی اور اسکیننگ، ’باچا خان یونیورسٹی کھل گئی‘

عدنان اسحاق15 فروری 2016

گزشتہ ماہ پاکستانی شہر چارسدہ میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے والی باچا خان یونیورسٹی میں آج سے تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ سے بحال ہو گئی ہیں۔ اس موقع پر جامعہ کے باہر اور چھت پر پولیس تعینات کی گئی۔

https://p.dw.com/p/1HvW2
تصویر: Reuters/K. Parvez

جامعہ باچا خان کے وائس چانسلر فضل رحیم مروت نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’میں بہت خوشی کے ساتھ یہ اعلان کر رہا ہوں کہ آج سے یونیورسٹی کھل گئی ہے اور اس موقع پر سلامتی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے، عسکریت پسندوں کی سوچ کو شکست دینا۔ نئےحفاظتی اقدامات کے تحت اب اِس تعلیمی ادارے میں غیر متعلقہ افراد کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جبکہ دیواروں پر بھی خار دار تار لگا دیے گئے ہیں۔

بیس جنوری کو صوبے خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں اکیس افراد ہلاک ہوئے، جن میں اساتذہ اور طلبہ شامل تھے۔ جوابی کارروائی میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ آج پیر کے روز سے باچا خان یونیورسٹی کی چھت پر پولیس کے کمانڈوز تعنیات کر دیے گئے ہیں جبکہ طلبہ کو جامہ تلاشی اور اسکیننگ کے بعد ہی یونیورسٹی میں داخل ہونے دیا جا رہا ہے۔

Pakistan Beerdigung Opfer Bacha-Khan-Universität in Charsadda
باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں اکیس افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

جامعہ باچاخان پر حملے کے بعد پاکستان بھر میں تعلیمی اداروں میں سلامتی کے انتظامات کے حوالے سے خوف و دہشت کی فضا قائم ہو گئی تھی۔ ساتھ ہی طالبان کے ایک گروپ کے کمانڈر خلیفہ عمر منصور کی جانب سے تسلسل کے ساتھ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی نے صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا تھا۔

ان حالات میں ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیمی اداروں کو عارضی طور پر بند بھی کر دیا گیا تھا۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی راولپنڈی میں لڑکیوں کے ایک سرکاری اسکول کو پولیس اور کار چوروں کے مابین ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کے دوران کسی ممنکہ حملے کے خوف سے خالی کرا لیا گیا تھا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ فیصل آباد میں بھی پیش آیا تھا۔

وائس چانسلر فضل رحیم مروت نے مزید بتایا کہ طلبہ کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ شعبہ بائیو ٹیکنالوجی کے ایک بیس سالہ طالب علم رحمت اللہ کے مطابق، ’’ہم آج صرف ہلاک ہونے والے اپنے ساتھیوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے عہد کے ساتھ یونیورسٹی آئے ہیں۔‘‘ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر افتخار عالم نے اس بارے میں کہا،’’ آج سے کلاسوں کا شروع ہونا دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اپنے دشمنوں اور ان قوتوں کو شکست دینے کے لیے تیار ہیں، جو پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔‘‘