1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان میں نئے وزیر اعظم کی آمد کی راہ ہموار

20 ستمبر 2006

Shinzo Abe نے چین اور جنوبی کوریا جیسے ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کاعزم بھی ظاہر کیا کہ جو گزشتہ 2 سال کے عرصے میں خاص طور پر وزیر اعظم کوئے زومی کے، دوسری جنگ عظیم کے سپاہیوں کے مقبرے پر حاضری دینے کی وجہ سے سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/DYJX
تصویر: AP

جاپان کی برسراقتدار لیبرل ڈیمکریٹ پارٹی نے Shinzo Abe کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر منتخب کرکے، ان کے لئے آئندہ کا وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ ہفتے کے آغاز پر، شینسو آبے، پارلیمنٹ میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔

ان کے انتخاب کے سلسلے میں ووٹنگ کے عمل اور نتائج کے اعلان کو سرکاری ٹیلی وژن پر براہ راست دکھایا گیا۔ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم کوئے زومی کو شینسو کا فکری رہنما قرار دیا جاتا ہے کہ جنہوں نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

شینسو نے اپنے انتخاب کے بعد کہا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اصلاحات اور آئیڈیل ازم کا چراغ ہاتھ میں لے کر آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا ان کی سب سے پہلی ترجیح ، تعلیمی نظام میں اصلاح ہو گی۔

انہوں نے چین اور جنوبی کوریا جیسے ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کاعزم بھی ظاہر کیا کہ جو گزشتہ 2 سال کے عرصے میں خاص طور پر وزیر اعظم کوئے زومی کے، دوسری جنگ عظیم کے سپاہیوں کے مقبرے پر حاضری دینے کی وجہ سے سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔

البتہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے فوجیوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے کوئے زومی کے اقدام کی حمایت ضرور کی ہے لیکن اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا کہ کیا وہ خود بھی ایسا اقدام کریں گے یا نہیں۔

جاپان کے نئے متوقع وزیر اعظم شینسو آبے نے واضح طور پر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ جاپان امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں شامل ہوگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی لاجسٹک امداد کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا چونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی تک جاری ہے لہٰذا ہمیں بھی اس جد وجہد میں مضبوط کردار ادا کرنا ہو گا۔ جاپان کے فوجی اس وقت عراق میں بھی تعمیر نو کے کاموں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ جاپان کے فوجی کسی ایسے ملک میں تعمیر نو کے کاموں میں مدد دے رہے ہیں جہاں ابھی تک جنگ جاری ہے۔

شینسو نے جاپانی آئین کو از سر نو مرتب کرنے کی بات بھی کی ہے۔البتہ انہوں نے ملک میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کیا۔تاہم انہوں نے کوئے زومی کے اقتصادی اصلاحات کے پروگرام کا دفاع کرتے رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے کہ جنہوں نے ملک میں پوسٹ کے مقتدر ادارے کی اجارہ داری کو ختم کر دیا تھا۔

جاپان کے متوقع وزیر اعظم نے کہا کہ اصلاحات کا عمل نہ صرف روکا نہیں جائے گا بلکہ اس میں اور زیادہ تیزی لائی جائے گی۔کہا جاتا ہے کہ شینسو، کوئے زومی کی طرح سخت گیر اور جذباتی رویہ نہیں رکھتے کہ جنہوں براہ راست لوگوں سے آزادی منڈی کی سیاست کو قبول کرنے کا مطالبہ کر کے جاپان کی متفقہ سیاست میں رخنہ ڈال دیا تھا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شینسو کی ماضی کی کارکردگی میںکوئی ایسی چیز نظرنہیں آتی جن سے ان کی غیر معمولی سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہو۔اس لحاظ سے بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ساکھ قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو آج جو لوگ ان کا سہارا لے کر سیاست کر رہے ہیں کل کو وہی لوگ انہیں پیچھے دھکیل کر آگے آسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہ لیبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ان دھڑوں کو بھی خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کوئے زومی کی پالیسیوں سے نا خوش ہیں۔