1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان نے روس سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا

2 نومبر 2010

پرانے سرحدی تنازعے پرنئی کشیدگی پیدا ہونے کے بعد جاپان نے روس سے اپنا سفیرعارضی طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ منگل کو ٹوکیو حکومت نے کہا کہ وہ گزشتہ روز متنازعہ علاقوں میں روسی صدر کے دورے کی تفصیلات حاصل کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/PwLw
روسی صدردمتری میدویدف متنازعہ جزیرے کے دورے کے دورانتصویر: AP

اس نئی کشیدگی کے بعد روسی حکام نے کہا ہے کہ وہ جاپان کی طرف سے اٹھائے گئے اس اقدام کے جواب میں فوری طور پر ٹوکیو میں تعینات روسی سفیر کو واپس نہیں بلائیں گے۔ ماسکو حکومت کے مطابق روسی صدر میدویدیف دیگر متنازعہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔

روسی صدردمتری میدویدف نے پیر کو متنازعہ جزائر کُریل کے ایک چھوٹے سے جزیرے کا پہلی مرتبہ دورہ کیا تھا، جو اس گروپ میں شامل تین دیگر جزائر کے ساتھ دوسری عالمی جنگ کے اواخرمیں روس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

Russland Japan Dimitri Medwedew
صدردمتری میدویدف کے اس دورے کے بعد ٹوکیو میں عوامی سطح پر بھی شدید ردعمل نظر آیاتصویر: AP

بحرالکاہل کے سمندری علاقے میں واقع جنوبی کُریل کے جزائر پر قریب 65 برس پہلے تک جاپان کا قبضہ تھا۔ جاپان ان جزائر کو اپنے شمالی علاقے قرار دیتا ہے جبکہ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ جزیرے اس کے ریاستی علاقے کا حصہ ہیں۔

روسی صدر کے ان جزائر میں سے ایک کے دورے کے بعد جاپانی وزیر خارجہ سیئجی مائہارا نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ’افسوناک‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے منگل کو کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ماسکو سے جاپانی سفیر کو عارضی طور پر واپس بلا لیا جائے۔‘‘ تاہم جاپانی وزیر خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ واپس بلائے جانے والے سفیر کو کب واپس بھیجا جائے گا۔

اس سے قبل جاپانی حکام نے ٹوکیو میں تعینات روسی سفیرکو طلب کر کے صدر میدویدیف کے متنازعہ دورے کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔

روسی صدر نے جاپانی زبان میں ’کوناشیر‘ اور روسی زبان میں ’کوناشیری‘ کہلانے والے کریل کے اس جزیرے کا چار گھنٹے کا قدرے مختصر دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے متعدد سکیورٹی چیک پوائنٹس کا جائزہ لینے کے علاوہ مقامی صحافیوں اور شہریوں سے گفتگو بھی کی تھی۔

صدر میدویدیف کے اس دورے پر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے جاپانی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے جاپانی ردعمل کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ جزائر روسی سرزمین کا حصہ ہیں اور روسی صدر نے جس علاقے کا دورہ کیا ہے، وہ وفاق روس ہی کا حصہ ہے۔

Kunashiri Island Japan
بحرالکاہل کے سمندری علاقے میں واقع جنوبی کُریل کے جزائر قدرتی وسائل سے مالا مال ہیںتصویر: AP

اس تازہ کشیدگی کے باوجود جاپانی حکومت نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما اسی ماہ ہونے والے طے شدہ مذاکرات میں ضرور حصہ لیں گے۔ روسی صدر میدویدیف اور جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان کے درمیان تیرہ تا چودہ نومبر جاپان میں ہونے والے ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ایک باہمی ملاقات بھی طے ہے۔ جاپانی وزیر خارجہ کے بقول اس ملاقات میں کریل کے متنازعہ جزائر کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر کے متنازعہ علاقوں کے دورے سے ماسکو حکومت نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ان جزائر کو چھوڑ دینے پر ہرگز تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف جاپان میں وزیر اعظم کان کو اس مسئلے پر اختیار کی گئی اپنی جوابی حکمت عملی کے باعث سخت تنقید کا سامنا بھی ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک