1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جاگ یورپ جاگ!‘، انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی لیڈر لے پین

علی کیفی روئٹرز
21 جنوری 2017

انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی لیڈر مارین لے پین نے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بریگزٹ اور ٹرمپ کی فتح کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب یورپی ووٹرز کو بھی جاگ جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2WBRs
ENF Koblenz Treffen europäischer Rechtspopulisten
تصویر: dpa

اکیس جنوری ہفتے کے روز جرمن شہر کوبلنز میں اپنے سینکڑوں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے مارین لے پین نے کہا کہ یورپی رائے دہندگان کو امریکی اور برطانوی ووٹروں کی تقلید کرنی چاہیے اور 2017ء میں جاگ جانا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ برطانوی رائے دہندگان کا یورپی یونین کو چھوڑنے کا گزشتہ برس کا فیصلہ ایک ایسی سیاسی تحریک کو جنم دے گا، جو ایک کے بعد دوسرے ملک کو متاثر کرتی چلی جائے گی۔

مارین لے پین نے اپنے حامیوں کی تالیوں کی گونج میں کہا:’’2016ء کا سال اینگلو سیکسن ملکوں کے جاگنے کا سال تھا۔ مجھے یقین ہے کہ 2017ء وہ سال ہو گا، جب براعظم یورپ کے عوام بھی جاگیں گے۔‘‘

مارین لے پین فرانس کی  مہاجرین مخالف جماعت نیشنل فرنٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ مئی میں فرانس میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار شرکت کر رہی ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اُن دو امیدواروں میں سے ایک ہوں گی، جو آخر میں صدارتی دوڑ میں شامل رہ جائیں گے۔

لے پین کے انتخابی پروگرام میں یورپ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ جرمن شہر کوبلنز میں ’یورپ کے لیے آزادی‘ کے عنوان سے منعقدہ اجتماع میں یورپ بھر کے دائیں بازو کے وہ عناصر شریک تھے، جن کے ہاں قوم پرستی کے رجحانات ماضی میں یورپی سطح پر قریبی تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ لے پین نے کہا:’’یورپ میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں متوقع تبدیلی میں کلیدی کردار بریگزٹ کا ہو گا۔ خود مختار لوگ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کیا کرتے ہیں۔‘‘

ENF Koblenz Treffen europäischer Rechtspopulisten
جرمن شہر کوبلنز میں انتہائی دائیں بازو کے یورپی سیاسی دھڑوں کے اجتماع میں شریک ہالینڈ کے گیئرٹ وِلڈرز (دائیں) تصویر: dpa

لے پین کے مطابق بریگزٹ کے بعد اس نوعیت کے ’دوسرے واقعے کا ظہور بھی کچھ ہی عرصے بعد ہو گیا اور وہ تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا میں صدر منتخب ہو جانا۔ اُن (ٹرمپ) کا یورپ کے بارے میں موقف واضح ہے، وہ عوام کے ا ستحصال کے نظام کی حمایت نہیں کرتے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ پیر کو ٹائمز آف لندن اور جرمن اخبار ’بِلڈ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو یمں ٹرمپ نے کہا تھا کہ یورپی یونین جرمنی کی ’آلہٴ کار‘ بن گئی ہے۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے پیشین گوئی کی تھی کہ جیسے برطانوی عوام نے گزشتہ سال جون میں یونین چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ایسے ہی عنقریب یونین کے مزید رکن ملک بھی کریں گے۔

بے روزگاری کی بلند شرح، بچتی اقدامات، بڑی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین کی آمد اور فرانس، بیلجیئم اور جرمنی میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث یورپ بھر میں مہاجرین مخالف عوامیت پسند جماعتوں کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے اور لوگ زیادہ سے زیادہ روایتی جماعتوں سے دُور ہٹ رہے ہیں۔

کوبلنز کا اجتماع یورپی پارلیمان کے سب سے چھوٹے گروپ ’یورپ آف نیشنز اینڈ فریڈم‘ (ENF) کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور اس میں جرمنی کے سرکردہ میڈیا اداروں کی شرکت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

Siegmar Gabriel in Koblenz Proteste ENF Tagung
کوبلنز میں دائیں بازو کے عناصر کے اجتماع کے خلاف مظاہرے میں شریک جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ زیگمار گابریئلتصویر: Reuters/K.Pfaffenbach

2017ء میں یورپ کی عوامیت پسند جماعتیں کئی ایک انتخابی معرکوں میں اپنی کامیابی کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔ اس اجتماع میں ہالینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی (PVV) کے لیڈر گیئرٹ وِلڈرز بھی شامل تھے، جنہیں گزشتہ مہینے مراکشی شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے الزام میں قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ یہیں اٹلی کی ناردرن لیگ کے ماتیو سالوینی بھی تھے، جو یورو زون سے اٹلی کے اخراج کے حامی ہیں۔

ہالینڈ میں عام انتخابات پندرہ مارچ کو ہو رہے ہیں اور گیئرٹ وِلڈرز رائے عامہ کے تمام تر جائزوں میں سبقت لیے ہوئے ہیں۔ کوبلنز میں وِلڈرز نے کہا:’’کل ایک آزاد امریکا تھا، آج کوبلنز ہے اور کل ایک نیا یورپ ہو گا۔‘‘

اس اجتماع کے باہر سڑک پر انتہائی دائیں بازو کے عناصر کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی ہو رہا ہے، جس میں توقع کی جا رہی ہے کہ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سربراہ زیگمار گابریئل بھی شریک ہو جائیں گے۔