1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جبری شادی جرم ، سزا پانچ سال قید: جرمن کابینہ کا فیصلہ

28 اکتوبر 2010

برلن میں وفاقی جرمن کابینہ نے متفقہ طور پر ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اس کا تعلق جبری شادی اور ایسے تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات سے ہے جو اس مغربی معاشرے میں ضم ہونے میں ناکام رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Pq67
تصویر: AP

وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ایک عرصے سے تارکین وطن کے انضمام کا موضوع سیاسی اور عوامی سطح پر زیر بحث ہے۔ حکومت غیر ملکیوں کو جرمن معاشرے میں بہتر طریقے سے ضم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنا چاہتی ہے تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ ترک وطن کرکے جرمنی آنے والے غیر ملکی جرمن زبان پر توجہ دیں اور جرمنی کی آئینی جمہوری اقدار کا مکمل احترام کریں۔ اس بارے میں بُدھ کو جرمن کابینہ کے اجلاس میں چند اہم فیصلے کئے گئے ۔

NO FLASH Frau mit Kopftuch Symbolbild Zwangsheirat Integrationskurse Islam Integration
جو معاشرے میں ضم ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اُس کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے: کابینہ کا فیصلہتصویر: picture alliance/dpa

برلن میں وفاقی جرمن کابینہ نے متفقہ طور پر ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اس کا تعلق جبری شادی اور ایسے تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات سے ہے جو اس مغربی معاشرے میں ضم ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ میرکل حکومت کی طرف سے جبری شادی کے عمل کو ایک قابل سزا جرم قراردینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے مرتکب افراد کو پانچ سال تک قید کی سزا سنائی جائے گی۔ اب تک جرمنی میں جبری شادی کو قانون کی رو سے ایک ظالمانہ عمل سمجھا جاتا تھا۔ اس بارے میں کابینہ کے فیصلے اُن خواتین کو بھی تحفظ فراہم کریں گے جنہیں ملک سے باہر لے جاکر شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ ’ تھوماس دے مائزیئیر‘ نے ایک بیان میں کہا ’ جبری شادی جرمنی میں ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس بارے میں جرمن عوام بہت زیادہ حساس ہوتے جا رہے ہیں اور اس معاملے کو ہمیں بہت سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا‘۔ جرمن وزیر نے مزیدکہا کہ جبری شادی کو ایک جرم اور قابل سزا قرار دینا اہم ترین قدم ہے۔ کابینہ کے فیصلوں کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے برلن میں وفاقی حکومت کے ایک ترجمان ’ اسٹیفن زائیبرٹ‘ نے کہا "جبری شادی کے شکار افراد کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ایسے افراد جنہیں جرمنی سے باہر لے جاکر جبری شادی پر مجبور کیا جاتا ہے انہیں جرمنی واپس آنے کی قانونی طور پر اجازت دی جائے گی بشرطیکہ وہ جرمن معاشرے میں اچھی طرح ضم ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔"

Ausstellung über Scheinehen Berlin
برلن میں پیپر میرج کے بارے میں لگنے والی ایک نمائشتصویر: DW

حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ایسے واقعات اکثر و بیشتر سامنے آتے ہیں کہ اس معاشرے میں مکمل طور پر ضم شدہ لڑکیوں اور خواتین کو تعطیلات گزارنے کے بہانے اُن کے آبائی ملک لے جایا جاتا ہے اور وہاں زبردستی اُن کی کسی کے ساتھ شادی کردی جاتی ہے۔ اس قسم کے واقعات کا آئندہ سختی سے نوٹس لیا جائے گا۔

تارکین وطن برادری میں پائے جانے والے ایک اور منفی رجحان کے بارے میں اسٹیفن زائیبرٹ نے کہا " پیپر میرج ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے سخت تر قوانین وضع کئے جائیں گے۔ پیپر میرج کے ذریعے جرمنی میں قیام حاصل کرنے والوں کے لئے شادی شدہ زندگی کی کم از کم معیاد کو 2 سال سے بڑھا کر 3 سال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"

بُدھ کو جرمن کابینہ میں ہونے والے فیصلوں میں متعدد دیگر موضوعات کے علاوہ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے بارے میں بھی اہم فیصلے کئے گئے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق جرمنی میں سیاسی پناہ کے درخواست دھندگان کو اب تک اُن علاقوں سے ایک خاص مدت تک نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جہاں انہوں نے اپنا کیس رجسٹر کروایا ہوتا تھا۔ آئندہ سے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو دوسرے علاقوں یہاں تک کہ دوسرے جرمن صوبوں میں بھی جانے کی اجازت ہوگی تاکہ وہ اپنا روزگار تلاش کر سکیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں