1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جدید غلامی کے خلاف جنگ میں دنیا کس قدر کامیاب رہی؟

امتیاز احمد31 مئی 2016

پندرہ برس پہلے انسانی اسمگلنگ اور جدید غلامی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ایک معاہدہ کیا گیا تھا لیکن تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس دوران بھی تقریباﹰ چھیالیس ملین افراد کو غلام بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ixtb
Pakistan Arbeiter Schulden Sklaverei Arbeitsbedingungen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

جدید غلامی ایک ایسی اصطلاع ہے، جس میں انسانی اسمگلنگ، جبری مشقت، قرضے کے عوض غلامی، جنسی اسمگلنگ، جبری شادیاں اور مزدوروں کا استحصال شامل ہیں۔ تاہم گزشتہ پندرہ برسوں میں جدید غلامی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔

سن 2000ء: اقوام متحدہ کی طرف سے ایک ایسے پروٹوکول کی منظوری دی گئی، جس کے تحت انسانی اسمگلروں کو بین الاقوامی منظم جرائم کے معاہدے کے تحت قید کی سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی اسمگلروں کے خلاف یہ پہلی بین الاقوامی قانون سازی تھی۔

سن 2001ء: افریقی ریاستوں کی مغربی اقتصادی کمیونٹی نے ایک ایسے عملی منصوبے پر اتفاق کیا، جس کا مقصد خطے میں غلامی اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کرنا تھا۔

سن 2002ء: بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا، جس کا مقصد بچوں کی حفاظت اور ان سے لی جانے والی مشقت کا خاتمہ تھا۔ دنیا کی تمام بڑی چاکلیٹ کمپنیاں اس کا حصہ تھیں اور چاکلیٹ کی تیاری کے سلسلے میں سپلائی سلسلے کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سن 2004ء: برازیل نے ملک میں مزدوروں کی غلامی کو ختم کرنے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس پروگرام میں عوامی تنظیموں، کاروباری حلقوں اور حکومتی اداروں نے مل کر کام کرنا شروع کیا تاکہ جبری مشقت کا کاتمہ ہو سکے۔

سن 2005ء: انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے پہلی مرتبہ جبری مشقت سے متعلق اپنی بین الاقوامی رپورٹ جاری کی۔ اس وقت جبری مشقت کرنے والے افراد کی تعداد تقریباﹰ بارہ ملین بتائی گئی تھی، جو اب بڑھ کر تقریباﹰ اکیس ملین ہو چکی ہے۔

سن 2008ء: یورپ میں ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا، جس کے تحت پہلی مرتبہ اسمگلنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور متاثرین کے تحفظ کے لیے کم از کم معیارات مقرر کیے گئے۔

سن 2008ء: آئی ایل او نے ایک ایسا کنونشن منظور کیا، جس کے تحت گھریلو ملازمین کو بنیادی حقوق فراہم کیے گئے۔

سن 2013ء: واک فری فاؤنڈیشن کی جانب سے غلامی سے متعلق پہلا عالمی انڈیکس جاری کیا گیا، جس میں دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد تقریباﹰ تیس ملین بنائی گئی۔ سن دو ہزار سولہ میں یہ تعداد تقریباﹰ چھیالیس ملین ہو چکی ہے۔

سن 2015ء: برطانیہ میں جدید غلامی سے متعلق قانون کا نفاذ ہوا۔ اس کے تحت کاروباری اداروں کو وہ تفصیلات جمع کروانے کا پابند بنایا گیا، جس کے تحت یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی مصنوعات یا ان کی سپلائی چین میں مزدروں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کے تحت اسمگلروں کے لیے قید کی سزا بڑھا کر چودہ برس تک کر دی گئی اور حکام کو اسمگلروں سے متاثرین کے لیے زر تلافی لینے کا اختیار بھی حاصل ہوا۔

اگر ان تمام اقدامات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا کہ جدید غلامی کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کا سفر ابھی بہت طویل ہے اور اس سلسلے میں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔