1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرائم پيشہ مہاجرين کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا فیصلہ

عاصم سليم8 جنوری 2016

جرمن شہر کولون ميں نئے سال کی آمد کے موقع پر لڑکيوں کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے واقعے کے بعد برسر اقتدار اتحادی جماعتوں نے جرائم کے مرتکب پائے جانے والے مہاجرين کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اظہار کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HaG7
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

چانسلر انگيلا ميرکل کی سياسی جماعت کرسچین ڈيموکريٹک یونین (CDU) کی جانب سے مجرمانہ افعال کے مرتکب پائے جانے والے پناہ گزينوں کے خلاف سخت سزا کی سفارش پيش کی گئی ہے۔ اس بارے ميں ايک مسودہ تيار کيا گيا ہے، جسے مائنز ميں ہونے والے پارٹی کے اجلاس ميں باقاعدہ طور پر بحث کا حصہ بنايا جائے گا۔

اکتيس دسمبر کی رات کولون کے مرکزی ٹرين اسٹيشن کے باہر نئے سال کی آمد کا جشن مناتے ہوئے درجنوں لڑکيوں اور عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کيا گيا۔ اب تک اس سلسلے ميں 121 خواتين شکايات درج کرا چکی ہيں، جنہيں يا تو جنسی طور پر ہراساں کيا گيا يا ان سے ان کی ذاتی اشیاء جبراً چھين لی گئيں۔ متاثرين کے بقول حملہ آور شراب کے نشے ميں دھت تھے اور ان کی عمريں اٹھارہ سے پينتيس برس کے درميان تھيں۔ کولون پوليس کے سربراہ کے مطابق حملہ آور بظاہر ’عرب اور شمالی افريقی‘ ملکوں سے تھے۔ اگرچہ تاحال اس حوالے سے کوئی شواہد نہيں مل سکے ہيں کہ حملہ آور مہاجرين ہی تھے تاہم پوليس چيف نے جرمن اخبار ’ڈی ويلٹ‘ کو بتايا ہے کہ ان ميں يقيناً تارکين وطن شامل تھے۔

سی ڈی يو کی جانب سے تيار کردہ مسودے ميں يہ تجويز دی گئی ہے کہ جن پناہ گزينوں کو سزا کا حقدار قرار ديا جائے يا ان کی نگرانی کا فيصلہ کيا جائے، انہيں پناہ کی درخواست دينے کی اجازت نہيں ہونی چاہیے۔ مسودے ميں ملوث ملزمان کی ملک بدری، اضافی ويڈيو نگرانی اور جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کو ايک مخصوص جرم قرار دينے کو بھی تجويز کیا گیا ہے۔

اتحادی جماعت (SPD) کے سربراہ اور نائب چانسلر زيگمار گابريل
اتحادی جماعت (SPD) کے سربراہ اور نائب چانسلر زيگمار گابريلتصویر: Reuters/F. Bensch

اسی موقف کی تائيد میرکل حکومت کی اتحادی جماعت (SPD) کے سربراہ اور نائب چانسلر زيگمار گابريل نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ٹيکس ادا کرنے والے جرمن شہری غير ملکی ملزموں کو حراست ميں رکھنے کا بوجھ کيوں اٹھائيں۔‘‘ ان کا مزيد کہنا تھا کہ مہاجرين کے ليے اپنے آبائی ملکوں ميں جيل جانے کا خوف جرمنی ميں حراست ميں وقت گزارنے سے کہيں زيادہ کارآمد ثابت ہو گا۔

گزشتہ برس تقريباً 1.1 ملين تارکين وطن سياسی پناہ کے ليے جرمنی پہنچے۔ تجزيہ نگار مجتبٰی رحمان کے مطابق اگر مشرقی وسطی سے آنے والے تارکين وطن اور جنسی حملوں ميں ملوث افراد کا کوئی براہ راست تعلق ثابت ہو جاتا ہے، تو آئندہ برس مارچ ميں ہونے والے رياستی انتخابات ميں سی ڈی يو کی پوزيشن پر فرق پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اس سے چانسلر ميرکل پر بھی مہاجرين کی حد مقرر کرنے کے ليے کافی دباؤ بڑھے گا۔