1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور ترکی کے مابین ایک اور ناراضی

8 دسمبر 2016

ترک حکمران جماعت (اے کے پی) کی ایک رکن کے ساتھ جرمنی کے کولون بون ہوائی اڈے پر مبینہ نامناسب سلوک پر انقرہ حکومت کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ترک سیاستدان کے پاس ان کا ’سفارتی پاسپورٹ‘ نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/2TwMy
Deutschland Flüge am Flughafen Köln Bonn gestoppt
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker

ترک سیاستدان عائشہ نور باخ چیکاپیلے کے ساتھ کولون بون ہوائی اڈے پر پیش آنے والے واقعے پر ملکی صدر رجب طیب ایردوآن نے جرمن حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایردوآن نے جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’آپ اپنے ملک میں دہشت گردوں کا تو مہمان کے طور پر استقبال کرتے ہیں لیکن ترک پارلیمان کی نائب صدر اور اس کے وفد کو گھنٹوں تک اپنے دروازے پر انتظار کرواتے ہیں۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ عائشہ نور کو اس وجہ سے ہوائی اڈے پر ایک گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا کیونکہ ان کے سفری دستاویزات مکمل نہیں تھے۔ عائشہ نور نے اعتراض کیا ہے کہ اس دوران انہیں ایک ایسے کمرے میں بٹھا دیا گیا، جہاں پر غیر قانونی تارکین وطن کو رکھا گیا تھا۔ ترک پارلیمان کے نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ ان کے ساتھ پولیس کا رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔

Aysenur Bahcekapili
عائشہ نور ترک پارلیمان کی نائب صدر ہیںتصویر: imago/Depo Photos

اس خبر کے بعد ترک وزارت خارجہ نے انقرہ میں تعینات جرمن سفیر کو مارٹن ایرڈمان کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ جرمن حکام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایرڈمان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس ’سفارتی واقعے‘ پر بات چیت کے لیے ترک وزارت خارجہ میں آئیں۔ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ جرمن سفیر کو انقرہ حکام نے طلب کیا ہے۔ سفارتی ضوابط کے مطابق کسی دوسرے ملک کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرنے کو دعوت دینے کے مقابلے میں انتہائی شدید ردعمل میں شمار کیا جاتا ہے۔

ترک ذرائع کے مطابق عائشہ نور کا وہ بیگ چوری ہو گیا تھا، جس میں ان کے تمام دستاویزات تھے۔ اسی وجہ سے ترک قونصل خانے نے انہیں ایک متبادل پاسپورٹ جاری کیا تھا۔ جرمن حکام نے بتایا کہ یکم دسمبر کو جب عائشہ نور باخ چیکاپیلے ترکی واپس جانا چاہتی تھیں اور اس موقع پر ان کی جانب سے پیش کیے جانے دستاویزات سے یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ انہیں سفارتی استثنٰی حاصل ہے، ’’اس کے بعد پولیس نے دستاویزات کی جانچ پڑتال کے لیے ترک سفارت خانے سے رابط کیا، جس میں تقریباً پینتالیس منٹ لگے۔‘‘

ترکی میں جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد جرمنی میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رامشٹائن چھاؤنی میں تعینات کئی ترک فوجیوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے ۔ یہ پیش رفت بھی ایک نئی سفارتی جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔