1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی تارکین وطن کو ہنگری نہیں بھیجے گا

عاطف توقیر اے ایف پی
11 اپریل 2017

جرمن حکومت کی جانب سے منگل کے روز کہا گیا ہے کہ جب تک ہنگری کی حکومت یہ یقین دہانی نہیں کرائے گی کہ وہ اپنے ہاں آنے والے تارکین وطن کو حراست میں نہیں لے گی، تب تک کسی مہاجر کو ہنگری نہیں بھیجا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2b3bB
München Ankunft der Flüchtlinge im Herbst 2015
تصویر: Getty Images/P. Guelland

یورپی یونین کے ڈبلن ضوابط کے مطابق سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو یورپی یونین کی اس رکن ریاست میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے وہ یونین میں داخل ہوئے، تاہم جرمن حکومت کے مطابق ہنگری میں تارکین وطن کو درپیش خراب صورت حال کے تناظر میں ان ضوابط پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔

اس سے قبل اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی یورپی ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ڈبلن معاہدے کے تحت تارکین وطن کی ہنگری منتقلی کا عمل معطل کر دیں۔ ہنگری میں رواں برس مارچ ہی میں نئے قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے، جس کے تحت ملک میں داخل ہونے والے سیاسی پناہ کے پناہ گزینوں کو ان کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک حراست میں رکھا جائے گا۔

Berlin München ICE Ankunft der Flüchtlinge im Herbst 2015
جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہےتصویر: Getty Images/C. Koall

جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے دفتر برائے مہاجرت کو جاری کردہ ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ڈبلن معاہدے کے تحت تارکین وطن کو ہنگری نہ بھیجا جائے اور کسی بھی منتقلی سے قبل یہ ضمانت لی جائے کہ ہنگری میں اس مہاجر کو یورپی ضوابط کے مطابق رکھا جائے گا۔

وزارت داخلہ کے ہدایت نامے کے مطابق، ’’ہنگری کے حکام کی جانب سے یقین دہانی نہ ملنے تک، کسی بھی شخص کی ہنگری منتقلی کا عمل روک دیا جائے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی نے سن 2015ء میں شامی مہاجرین کے بہاؤ کے تناظر میں ڈبلن معاہدہ معطل کر کے لاکھوں افراد کو اپنے ہاں پناہ دی تھی، تاہم اب یہ معاہدہ دوبارہ لاگو ہو چکا ہے۔

میرکل حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد کو کم سے کم سطح پر لایا جائے۔ ان اقدامات کے باعث داخلی سطح پر میرکل کو سخت مخالف کا سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ برس ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے بھی جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جب کہ بلقان ریاستوں نے بھی اپنی اپنی قومی سرحدیں تارکین وطن کے لیے بند کر رکھی ہیں۔