1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: تعليم کے بعد ملازمت سے قبل عملی تربيت

25 مئی 2011

جرمنی ميں کسی بھی شعبے ميں اعلٰی تعليم شروع کرنے سے قبل يا اُس کے دوران اپرنٹس شپ، يعنی شعبے سے متعلق کسی کارخانے يا ادارے ميں عملی تربيت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/11Nt0
گوئٹے انسٹيٹيوٹ بون
گوئٹے انسٹيٹيوٹ بونتصویر: DW

ليکن تقريباً ايک تہائی طلبا اپنی تعليم مکمل کر لينے کے بعد بھی کچھ عرصے کے ليے مزيد عملی تربيت حاصل کرتے ہيں۔ اس کا انکشاف جرمن ٹريڈ يونين ايسوسی ايشن کے نوجوانوں کے شعبے اور ہانس بيوکلر فاؤنڈيشن کی طرف سے کرائے جانے والے ايک مطالعے سے ہوتا ہے۔

اس وقت جرمن شہر بون کے گوئٹے انسٹيٹيوٹ ميں ايک کلاس ہو رہی ہے۔ دن کے گيارہ بجے ہيں۔ دنيا کے مختلف حصوں سے يہاں آنے والے 10 افراد بڑے انہماک سے بليک بورڈ پر نظريں جمائے ہوئے ہيں۔ بليک بورڈ کے سامنے کھڑی استانی آنا سان سيلو بہت صاف آواز ميں اُنہيں جرمن گريمر کا سبق دے رہی ہيں۔ ابھی چند ہی ماہ پہلے کی بات ہے کہ يہ 25 سالہ استانی اس جگہ سے چند سو ميٹر دور ہی واقع بون يونيورسٹی ميں خود بھی جرمن لسانيات کی تعليم حاصل کر رہی تھیں۔ ليکن اب وہ اپنی تعليم کاميابی سے مکمل کر چکی ہيں۔

آنا سان سيلو کلاس ميں
آنا سان سيلو کلاس ميںتصویر: DW

ليکن آنا سان سيلو نے فارغ ا لتحصيل ہونے کے بعد کوئی ملازمت شروع کرنے سے قبل ايک بار پھر اپنے شعبے ميں مزيد عملی تربيت حاصل کرنے کا فيصلہ کيا حالانکہ گوئٹے انسٹيٹيوٹ ميں اپنی اس اپرنٹس شپ کا اُنہيں کوئی معاوضہ نہيں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ميں ستمبر میں جرمن زبان کی مزيد تعليم جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ اس کے نتيجے ميں مجھے جرمن پڑھانے کی اہليت حا صل ہو جائے گی جس کا مجھے بہت شوق بھی ہے۔ ليکن ستمبر ميں ابھی خاصا وقت ہے۔ اس ليے ميں نے يہاں گوئٹے انسٹيٹيوٹ ميں کچھ عملی تربيت شروع کر دی ہے۔ اس طرح مجھے يہ اندازہ بھی ہو رہا ہے کہ جرمن زبان پڑھانے والے اساتذہ کے ليے کيا کچھ اہم ہوتا ہے۔‘‘

اس طرح آنا سان سيلو گوئٹے انسٹيٹيوٹ ميں کسی قسم کی پيشہ ورانہ بندھن کے بغيراپنی محبوب ملازمت کا عملی تجربہ حاصل کررہی ہيں۔

ارجنٹائن کی ايک طالبہ عملی تربيت کے دوران
ارجنٹائن کی ايک طالبہ عملی تربيت کے دورانتصویر: DW

جرمنی کےاعلٰی تعليمی اداروں سے فارغ التحصيل ہونے والوں ميں سے ايک تہائی يہ فيصلہ کرتے ہيں کہ وہ کچھ عرصے کے ليے اپنے شعبے ميں مزيد عملی تربيت حاصل کرنا چاہتے ہيں۔ يہ انکشاف جرمن ٹريڈ يونين ايسوسی ايشن سے قربت رکھنے والی ہانس بيوکلر فاؤنڈيشن کی طرف سے کرائے جانے والے ايک مطالعے سے ہوا ہے۔

اس جائزے کے دوران جرمن يونيورسٹيوں سے فارغ ا لتحصيل ہونے والے 674 افراد سے اس بارے ميں پوچھا گيا۔ ہانس بيوکلر فاؤنڈيشن کی ريسرچ کے فروغ کے شعبے کی سربراہ کلاڈيا بوگے ڈان نے کہا کہ اگر اس جائزے کو صورتحال کی صحيح نمائندگی کرنے والے جائزے کے طور پر نہ بھی تسليم کيا جائے تب بھی اس سے ايسے دوسرے جائزوں کے نتائج کی تصديق ہوتی ہے، جو اس کے مشابہ تھے۔ انہوں نے کہا: ’’ايک طرف تو ہم يہ ديکھتے ہيں کہ اس طرح تعليم مکمل کر لينے والے طلبا کو ملازمت کی دنيا ميں داخل ہونے، اُس ميں قدم جمانے اور اُس کا تجربہ کرنے کا ايک اچھا موقع ملتا ہے۔ ليکن دوسری طرف يہ بھی صحيح ہے کہ اُنہيں کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ عملی تربيت کے بہت سے اداروں ميں اُنہيں بلا معاوضہ کام کرنا پڑتا ہے اور اُن ميں سے بعض ايسے بھی ہيں، جو يہ محسوس کرتے ہيں کہ اُن کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھايا جا رہا ہے۔‘‘

يہی وجہ ہے کہ اس دوران جرمن ٹريڈ يونين ايسوی ايشن يہ مطالبہ کر رہی ہے کہ تعليم مکمل کرنے کے بعد مزيد عملی تربيت کے حصول پرعمومی پابندی لگا دی جائے، چاہے اُن کا معاوضہ ديا جا رہا ہو يا نہيں۔ اس کے علاوہ يہ مطالبہ بھی ہے کہ تعليم کے دوران جو عملی تربيت دی جائے اس کا معاوضہ ہر شعبے ميں کم ازکم 300 يورو ماہانہ ہو۔ کلاڈيا بوڈے گان نے کہا: ’’عملی تربيت کے سلسلے ميں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا طرز عمل ايک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ انجينئرنگ کے مضامين پڑھنے والوں کے مقابلے ميں ثقافتی اور سماجی علوم کی تعليم حاصل کرنے والوں ميں فارغ التحصيل ہونے کے بعد مزيد عملی تربيت کے حصول کا رجحان زيادہ ہوتا ہے۔‘‘

جرمنی ميں تعليم مکمل کر لينے کے بعد مزيد عملی تربيت حاصل کرنے والوں ميں سے 20 فيصد طلبا کو اپنی گذر بسر کے ليے رياستی فلاحی امداد کا سہارا لينا پڑتا ہے۔

رپورٹ: يان ايليزبتھ / شہاب احمد صديقی

ادارت: امتياز احمد