1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سلامتی کونسل کا رکن، ڈوئچے ويلے کا تبصرہ

13 اکتوبر 2010

کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سلامتی کونسل کے پانچ غير مستقل اراکين کو منتخب کيا، جن ميں سے ايک جرمنی بھی ہے۔ اس طرح جرمنی اگلے دو برسوں تک اقوام متحدہ کے اعلی ترين ادارے کا رکن ہوگا۔

https://p.dw.com/p/Pdc7
جنرل اسمبلی جس نے سلامتی کونسل کے غير مستقل اراکين کو منتخب کياتصویر: AP

جرمنی، سلامتی کونسل کے غير مستقل رکن کی حيثيت سے کوئی معجزہ نہيں دکھا سکتا۔ اگر وہ ايسا کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہوتب بھی سلامتی کونسل کی ساخت ہی اُس کی راہ ميں آڑے آ جائے گی کيونکہ اس ميں آخری فيصلے کا حق صرف سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک، يعنی امريکہ، روس، برطانيہ، فرانس اور چين کو حاصل ہے۔ اس کے باوجود جرمن وزيرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اپنے ملک کے، سلامتی کونسل کا غير مستقل رکن منتخب ہونے پر خوش ہيں۔

UN Sicherheitsrat New York Dossierbild 3
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسلتصویر: cc-by-sa-Patrick Gruban

جرمنی کی، سلامتی کونسل کی پچھلی رکنيت کے زمانے ميں امريکہ نے عراق کی جنگ کو بين الاقوامی قانون کے دائرے ميں جائز قرار دلانے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش ميں اُس کی ناکامی کی وجہ جرمنی کی طرف سے انکار اور شک بھی تھا۔

Bundesaußenminister Westerwelle bei der UN
جرمن وزير خارجہ ويسٹر ويلے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

حقيقت يہ ہے کہ سلامتی کونسل کے غير مستقل رکن ممالک اُتنے لاچار نہيں ہيں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ پانچ مستقل اور 10غير مستقل اراکين پر مشتمل 15 رکنی سلامتی کونسل ميں کسی قرارداد کو منظورکرانے کے لئے نو اراکين کی حمايت حاصل کرنا ضروری ہے۔

جرمنی کو سلامتی کونسل ميں اس لئے بھی اہميت حاصل ہے کيونکہ ايک بڑے ملک کی حيثيت سے اُس کا اقتصادی ڈھانچہ ترقی يافتہ ہے، جو اس قسم کے کاموں کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ جرمنی سلامتی کونسل کے رکن کی حيثيت سے بعض اہم امور ميں مدد دے سکتا ہے۔ اُس نے عالمی آب و ہوا اور ماحول کے تحفظ کو اپنی رکنيت کے حصول کی مہم ميں بھی موضوع بنايا تھا اور اب وہ اس سلسلے ميں آگے بڑھ کرکام دکھا سکتا ہے۔ سن 2012 ميں جرمنی کو اپنی اہليت دکھانے کا ايک اور موقع ملے گا جسے اُس کی وزارت خارجہ بہت اہم سمجھتی ہے۔ وہ تخفيف اسلحہ اور مشرق وسطی کے تنازعے کے حل ميں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

جہاں تک ايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے کا تعلق ہے تو جرمنی اس وقت بھی سلامتی کونسل کی پانچوں ويٹو طاقتوں کے ساتھ اس سلسلے ميں تا حال ناکام مذاکرات ميں شامل ہے۔ اب وہ اگلے دو برسوں تک کے لئے اس بارے ميں بھی سلامتی کونسل کی تمام قرار دادوں ميں اپنی رائے دے سکے گا۔

تاہم سلامتی کونسل ميں جرمنی کی مستقل نشست کی اميد باندھنا قطعی خود فريبی ہوگی کيونکہ ويٹو طاقتيں اپنی طاقت اور اثر ميں کمی کا کوئی ارادہ نہيں رکھتيں۔ لہذا جرمنی کو صرف اُسی پر ہی اکتفا کرنا ہو گا جو ممکن ہے۔

تبصرہ: کرسٹینا بیرگمن

ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں