1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے خصوصی پرواز پر مہاجرين کی واپسی

عاصم سليم8 اپریل 2016

جرمنی اور تيونس کے مابين طے شدہ ايک معاہدے پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے تيونس سے تعلق رکھنے والے چوبيس تارکين وطن کو آج جرمنی سے ايک خصوصی پرواز کے ذریعے واپس ان کے ملک روانہ کر ديا گيا۔

https://p.dw.com/p/1IS5W
تصویر: picture alliance/R. Schlesinger

معاہدے کی شرائط بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ آٹھ اپريل کے روز تيونس سے تعلق رکھنے والے چوبيس تارکين وطن کو واپس ان کے ملک روانہ کر ديا گيا۔ اس پيش رفت کی تصديق جرمن رياست سيکسنی کی وزارت داخلہ کی جانب سے کر دی گئی ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ دونوں ممالک کے مابين ملک بدريوں کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد کا يہ پہلا واقعہ ہے۔

ان مہاجرين کو لائپزگ، ہالے کے ہوائی اڈے سے جمعرات کے روز روانہ کيا گيا۔ اب تک ’المغرب‘ کسی رياست بھيجے جانے والا يہ سب سے بڑا گروپ ہے۔ المغرب العربی ایک جغرافیائی اصطلاح ہے، جسے عرب مصنفین شمالی افريقہ کے اس علاقے کے لیے استعمال کرتے ہیں جسے بربرستان یا افریقہ کوچک (Africa Minor) کہتے ہیں اور جس میں طرابلس، ليبيا، تيونس، الجزائر اور مراکش شامل ہیں۔

سيکسنی کی وزارت داخلہ کے مطابق چونکہ متاثرہ پناہ گزينوں کے جرمنی ميں جرائم پيشہ ريکارڈ تھے، اس لیے ان تمام کی ملک بدری نا گزير تھی۔

ان مہاجرين کو لائپزگ، ہالے کے ہوائی اڈے سے جمعرات کے روز روانہ کيا گيا
ان مہاجرين کو لائپزگ، ہالے کے ہوائی اڈے سے جمعرات کے روز روانہ کيا گياتصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

وفاقی وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے ملک بدری کے عمل کو آسان بنانے کے ليے دونوں ممالک کے مابين طے ہونے والے معاہدے کا اعلان مارچ ہی ميں کيا تھا۔ قبل ازيں پناہ گزينوں کی شمالی افريقی ملکوں کی طرف ملک بدری کے عمل ميں متعدد دشواريوں کا سامنا تھا۔ متعدد اہم دستاويزات کی عدم دستيابی، کاغذی کارروائی ميں مشکلات اور باہمی تعاون ميں کمی جيسی وجوہات کی بناء پر يہ عمل پريشان کن تھا۔ تاہم نئے معاہدے کے تحت اب يہ رکاوٹيں دور ہو گئی ہيں۔

جرمنی ميں موجود تيونس سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی اکثریت جرمن وفاقی ریاست سيکسنی ميں مقيم ہے۔ رواں برس فروری کے اختتام تک تیونس سے آنے والے چھ سو دس تيونس تارکین وطن کی واپسی کے بارے ميں حتمی فيصلہ کر ليا گيا تھا تاہم اس سال کی پہلی سہ ماہی ميں صرف بارہ پناہ گزينوں کی ملک بدری عمل ميں آئی تھی۔ سيکسنی کے وزير داخلہ مارکوس اُولبیش نے ملک بدريوں کے اس آزمائشی منصوبے کو کامياب قرار ديا ہے۔