1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے نکالا جانے والا افغان مہاجر کابل میں زخمی

13 فروری 2017

کابل خودکش بم حملے میں زخمی ہونے والے افغان مہاجر عتیق اللہ اکبری کو دو ہفتے قبل ہی جرمنی سے جبری طور پر ملک بدر کیا گیا تھا۔ اکبری بضد ہے کہ وہ دوبارہ یورپ جانے کی کوشش کرے گا۔

https://p.dw.com/p/2XTU3
Afghanistan abgeschobene Flüchtlinge aus Deutschland kommen in Kabul an
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن کابل کی سپریم کورٹ کی عمارت پر ہونے والے حملے میں جہاں بیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوئے، وہیں ایک ایسا شخص میں زخمی ہوا، جو دو ہفتے قبل ہی جرمنی سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔

تئیس سالہ عتیق اللہ اکبری ان ساٹھ افراد کے گروپ میں شامل تھا، جسے چوبیس جنوری کو جرمنی سے واپس کابل روانہ کیا گیا تھا۔ اس نے جرمن صوبے باویریا میں پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی لیکن درخواست مسترد ہونے پر اسے افغانستان واپس بھیجا گیا تھا۔

پناہ کے متلاشیوں کے لیے جرمن حکومت کے مزید سخت فیصلے

پانچ جرمن صوبے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے گریزاں

افغان مہاجرین کا دوسرا گروپ بھی جرمنی بدر کر دیا گیا

گزشتہ برس اکتوبر میں جرمن حکومت اور افغانستان کے مابین ایک ڈیل طے پائی تھی، جس کے تحت کابل حکومت ایسے افغان باشندوں کو واپس لینے پر تیار ہو گئی تھی، جن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

زخمی ہونے والے اکبری نے وطن واپسی پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں واپس جاؤں گا۔ مجھے ضرور واپس جانا ہو گا۔‘‘ اس افغان شہری کے مطابق، ’’میرا افغانستان میں کچھ نہیں بچا ہے۔ میرے خاندان نے اپنا گھر فروخت کر دیا ہے، وہ سب ترکی میں پناہ گزین ہیں۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ جرمن حکومت کو اس وقت مہاجرین کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین سے متعلق فراخدلانہ پالیسی کی وجہ سے ملک میں مہاجر مخالف تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں غیر ملکیوں کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسی لیے برلن حکومت نے ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ تیز کر دیا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

تاہم دوسری طرف برلن حکومت ریاستی سطح پر اس دباؤ کا سامنا بھی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس روانہ نہ کیا جائے کیونکہ اس وسطی ایشیائی ملک میں سکیورٹی کی صورتحال مناسب نہیں ہے۔

اکبری اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں مغربی شہر ہرات سے فرار ہو کر جرمنی پہنچا تھا۔ اس کے بقول وہ ایک غیر سرکاری تنظیم میں کام کرتا تھا اور جان سے مار دیے جانے کی دھمکیوں کے بعد وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا۔

دوسری طرف میڈیا رپورٹوں کے مطابق جرمنی کے پانچ صوبوں نے افغان پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس روانہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان صوبوں کے حکام کے مطابق شورش زدہ ملک افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال ابتر ہے، اس لیے اس ملک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو جرمنی بدر کرنا درست نہیں۔

گزشتہ ویک اینڈ پر افغان پناہ گزینوں کی جرمنی بدری کے خلاف ڈوسلڈوف اور ہیمبرگ میں مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ ڈوسلڈوف کی احتجاجی ریلی میں کم از کم دو ہزار افراد نے شرکت کی جبکہ پولیس کے مطابق ہیمبرگ میں پندرہ سو مظاہرین نے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے خلاف آواز بلند کی۔