1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی، فرانس اور روس کا سربراہ اجلاس

23 ستمبر 2006

آج پیرس کے نواح میں جرمنی، فرانس اور روس کے سربراہانِ حکومت کے درمیان ہونے والے اجلاس میں اقتصادی معاملات کو ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر واضع طور پر ترجیح حاصل رہی۔ روس اور فرانس نے ٹرانسپورٹ اور طیارہ سازی کے شعبوں میں 10 ارب ڈالر سے زائد کے دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کئے۔

https://p.dw.com/p/DYJJ
(دائیں سے) ژاک شیراک، انگیلا میرکل اور ولادی میر پوٹن
(دائیں سے) ژاک شیراک، انگیلا میرکل اور ولادی میر پوٹنتصویر: Fotomontage/DW

اِس سربراہ کانفرنس کا لب و لہجہ فرانسیسی صدر ژاک شیراک نے آغاز ہی میں طے کر دیا جب اُنھوں نے روسی صدر Putin کو فرانس کے سب سے بڑے اعزاز Grand Cross of the Legion of Honour سے نوازا۔ روسی صدر Vladimir Putin نے یورپی خلائی اور فضائی دفاع کی کمپنی EADS میں روس کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پر جرمنی اور فرانس کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کسی جارحانہ مقصد سے نہیں کیا جا رہا۔

اِس ماہ کے شروع میں روس کی جانب سے یورپی خلائی اور فضائی کمپنی کے پانچ فیصد حصص کی خریداری اور ماسکو اور مغربی تیل کمپنیوں کے درمیان جاری تنازعے کی وجہ سے روس کے ممکنہ عالمی عزائم خاص طور سے توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ روس اپنے توانائی کے وسیع زخائر کے زریعے عالمی بساط پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ تاہم آج کے اجلاس کے بعد صدر Putin نے کہا کہ روس کی سب سے بڑی گیس کمپنی Gazprom اِس بات پر غور کر رہی ہے کہ Shtokman کے کنووں سے گیس کی پیداوار شروع ہونے کے بعد وہ اِس 70 ارب cubic metre کے زخائر میں سے کچھ حصہ یورپ کو سپلائی کرے۔

اگرچہ یورپ روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں اشتراکِ عمل میں گہری دلچسپی رکھتا ہے لیکن یورپی معیشت میں ماسکو کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سال موسمِ سرما میں روس نے یوکرائن کو وقتی طور پر گیس کی سپلائی بند کرکے یورپ کو پریشان کر دیا تھا اور پھر اب ماسکو حکومت نے تیل کی مغربی کثیر القومی کمپنیوں Shell اور Exxon Mobil کے روس میں جاری منصوبوں میں پیش رفت پر جو پابندیاں عائد کی ہیں اُن سے یورپ کو یہ تاثر مل رہا ہے کہ ماسکو اِن منصوبوں میں زیادہ عمل دخل چاہتا ہے۔ اِس تاثر کو زائل کرنے کے لئے آج کی پریس کانفرنس میں صدر Putin نے اِس بات پر زور دیا کہ روس توانائی کے شعبے میں یورپ کا ایک بھروسے مند ساتھی ہے۔ اور یہ کہ اُن کی حکومت کے لئے فرانس اور جرمنی کے ساتھ جدید ٹیکنولوجی، توانائی اور صنعت کے شعبوں میں تعاون ایک اہم ترجیح ہے۔

مجموعی طور پر آج کے سربراہ اجلاس میں سہ فریقی اقتصادی معاملات ہی حاوی رہے ور اِس بات کا کوئی زکر نہیں کیا گیا کہ آیا ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر کوئی بات ہوئی یا نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان، جرمنی اور اٹلی نے گزشتہ منگل کے روز یہ طے کیا تھا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کی کوشش سے پہلے یورپی مزاکرات کاروں کو ایران کو قائل کرنے کے لئے اکتوبر کے اوائل تک کا وقت دیا جائے گا۔ جہاں امریکہ اب بھی بار بار ایران کے خلاف پابندیوں کی بات اُٹھا رہا ہے، وہاں فرانسیسی صدر ژاک شیراک نے سلامتی کونسل اور جرمنی پر زور دیا ہے کہ وہ مزاکرات کے دوران دھمکیوں سے گریز کریں۔ چین اور روس نے پابندیوں کے حوالے سے واضع ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کے بعض یورپی اتحادی ملکوں میں بھی اِس بات پر گہرے تحفظات پائے جاتے ہیں۔

اِس معاملے پر امریکہ سے اختلافات کے باوجود صدر شیراک نے صحافیوں کی اِس رائے کو مسترد کر دیا کہ آج کا سربراہ اجلاس امریکہ کے خلاف اتحاد کی ایک کوشش تھا، بلکہ اُنھوں نے کہا کہ اِس اجلاس سے یہ واضع ہو جانا جاہئے کہ یورپی یونین روس کے ساتھ اچھے تعلقات کو مذید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ وفاقی جرمن چانسلر Angela Merkel نے بھی اِسی نقطے کو اُٹھاتے ہوئے یاد دلایا کہ اِس قسم کی سہ فریقی meetings کا سلسلہ 1998 (اٹھانوے) سے جاری ہے اور یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہیں۔