1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ملک بدریوں کی شرح میں نمایاں کمی

شمشیر حیدر
4 جون 2017

جرمن حکومت اس برس کے ابتدائی چار ماہ کے دوران پناہ کے مسترد درخواست گزروں کو طے شدہ ہدف سے بہت کم تعداد میں ملک بدر کر پائی ہے۔ برلن حکومت کو تارکین وطن کی ملک بدریوں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2e73a
Flughafen Leipzig/Halle Abschiebung abgelehnter Asylbewerber
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt

جرمنی کے ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس برس کے پہلے چار مہینوں کے دوران جرمنی سے محض ساڑھے آٹھ ہزار تارکین وطن کو واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجا گیا۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران جرمنی سے پچیس ہزار سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا تھا۔

بلغاریہ: نو پاکستانی اور افغان تارکین وطن ہلاک

جرمن اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ نے ملک کی وفاقی پولیس سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ اس برس پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال جنوری کے آغاز سے لے کر اپریل کے اواخر تک صرف گیارہ ہزار دو سو پناہ کے متلاشی افراد رضاکارانہ طور پر واپس اپنے آبائی وطن روانہ ہوئے۔

اس کے برعکس گزشتہ برس چوّن ہزار سے زائد غیر ملکی رضاکارانہ طور پر جرمنی سے واپس اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے تھے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ برس پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے ’قومی سطح پر کوشش‘ کرنے پر زور دیا تھا۔

چند ممالک کا ’عدم تعاون‘

جرمن چانسلر میرکل اور سولہ وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے ملک بدریوں کی تعداد میں کمی کے تناظر میں حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ جرمنی میں صرف انہی مہاجرین کو قیام کی اجازت ہو گی، جن کی جرمن حکام کو جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایسے مہاجرین کے علاوہ دیگر تمام غیر ملکیوں کو ہر صورت جرمنی سے جانا ہو گا۔

ویلٹ ام زونٹاگ سے گفت گو کرتے ہوئے جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کی خاتون ترجمان نے جرمنی سے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدریوں کی شرح میں کمی کی چند وجوہات بھی بیان کیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’سن 2016 میں ملک بدر ہونے والے اور رضاکارانہ طور پر چلے جانے والے زیادہ تر غیر ملکیوں کا تعلق بلقان کی مغربی ریاستوں سے تھا۔‘‘ خاتون ترجمان کے مطابق دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں مشکلات پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ کچھ ممالک اپنے شہریوں کی واپسی میں ’تعاون نہیں کر رہے‘۔

جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری کا نیا قانون ہے کیا؟

اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے جرمن وفاقی ریاست ہیَسے کی وزارت داخلہ نے اخبار کو بتایا کہ شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے باوجود اس لیے واپس ان کے وطنوں کی جانب نہیں بھیجا جا سکا، کہ ان کے پاس پاسپورٹ یا دیگر سفری دستاویزات نہیں تھیں۔

علاوہ ازیں جرمنی سے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا موضوع بھی سیاسی سطح پر بحث کا سبب بنا رہا۔ وفاقی حکومت کی رائے میں افغانستان میں ’محفوظ علاقے‘ موجود ہیں اور وطن واپسی کے بعد افغان شہری ان علاقوں میں آباد ہو سکتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کئی سیاسی جماعتیں اس حکومتی موقف سے متفق نہیں تھیں۔ گزشتہ ہفتے کابل میں بم دھماکوں کے بعد جرمن چانسلر میرکل نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ فی الحال روک دیا ہے۔

2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر

افغان ساتھیوں کی ملک بدری رکوانے کے لیے جرمن طلبہ سرگرم