جرمنی ميں طبی نگرانی ميں ختنے کا مجوزہ قانون
27 ستمبر 2012اس قانون کا پس منظر يہ ہے کولون کی ايک صوبائی عدالت نے مئی ميں چھوٹے لڑکوں کے ختنے کو اُنہيں جسمانی نقصان پہنچانے کے مترادف قرار ديا تھا۔ دوسری عدالتوں کے ليے اس عدالت کا فيصلہ ماننا لازمی نہيں ہے۔ ليکن اس فيصلے نے جرمنی کی يہودی اور مسلم آبادی ميں ہلچل مچا دی ہے اور اس پر عالمی توجہ بھی مرکوز ہو گئی ہے۔
جرمنی کی وفاقی وزارت قانون نے اس مقصد کے ليے جو قانونی شق وضع کی ہے اُس کے مطابق والدين مخصوص شرائط کے تحت اپنے لڑکے کے ختنے کی اجازت دے سکتے ہيں۔ ليکن ختنہ طبی اصولوں کے تحت ہی ممکن ہو گا اور اس ميں لڑکے کی تکليف اور درد کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا۔ اس سے پہلے تفصيلی معلومات بھی فراہم کرنا ہوں گی۔
وفاقی وزارت قانون کے وضع کردہ نئے ضابطے کے تحت ختنہ کرنے کی اجازت صرف ڈاکٹر کو ہوگی ليکن چھ ماہ تک کی عمر کے بچے کا ختنہ ايسے افراد بھی کر سکتے ہيں جنہيں اُن کی مذہبی برادری نے اس کے ليے مقرر کيا ہو اور جو ختنے ميں اُتنی ہی مہارت رکھتے ہوں جتنا کہ ايک ڈاکٹر۔
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر ڈيٹر گراؤمن نے اس پر اطمينان ظاہر کيا ہے اور کہا ہے کہ مجوزہ قانونی شق میں يہوديوں کی بہت سی خواہشات کو ملحوظ رکھا گيا ہے: ’وفاقی وزارت قانون کی تعريف کی جانا چاہيے کہ اُس نے ايسی عقلمندانہ تجويز پيش کی ہے۔‘
ليکن ڈاکٹروں اور انسانی حقوق کی تنظيموں نے ختنے کے نتائج سے خبردار کيا ہے اور اس بارے ميں معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔
فوجداری قانون کے ماہر رائن ہارڈ ميرکل نے اس مجوزہ قانون پرتنقيد کرتے ہوئے کہا: ’وزارت قانون سمجھتی ہے کہ اُس نے طبی نگرانی کے تحت ختنے کی شرط رکھ کر ختنے سے پہلے بچے کو بے ہوش کرنے يا اس کا جسم جزوی طور پر سُن کرنے کی دوا دينے کی ضرورت کو واضح کر ديا ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ہی يہ بھی کہا گيا ہے کہ يہودی برادری کے مقرر کردہ جراح بھی ختنہ کر سکتے ہيں۔ ليکن يہ افراد تو بے ہوش کرنے اور جسم کو سُن کرنے کے مخصوص طبی عمل سے بالکل لا علم ہوتے ہيں۔‘
ميُونسٹر يونيورسٹی کے بيجان فاتح مقدم نے کہا کہ ختنہ ايک نسبتاً معمولی سا عمل جراحی ہے جس کے خطرات بہت کم ہيں ليکن جس کے صحت اور حفظان صحت کے لیے طبی فوائد کو تسليم کيا جا چکا ہے۔
G. Birkenstock, sas / mm