1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کا طويل اور کٹھن راستہ

عاصم سلیم Holly Young
5 اکتوبر 2017

جرمنی ميں سياسی پناہ کے حصول کے بعد پناہ گزينوں کے ليے اپنے اہل خانہ کو يہاں لانا ايک طويل اور کٹھن مرحلہ ہے جبکہ قانون ميں ترميم کے سبب عارضی پناہ کے حامل تارکين وطن کو تو يہ حق بھی حاصل نہيں۔

https://p.dw.com/p/2lH3I
Deutschland unbegleitete Flüchtlinge Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/. Pleul

سياسی پناہ ملنے کے بعد جرمنی ميں اپنے اہل خانہ کو بلانا، جسے ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کہا جاتا ہے، کافی طويل و پيچيدہ مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ اس دوران تارکين وطن اپنے اہل خانہ سے دور تنہا وقت گزارتے ہيں، جس سے ان کے سماجی انضمام اور اپنے ارد گرد کے نئے ماحول کو سمجھنے پر منفی اثرات پڑتے ہيں۔ چواليس سالہ شامی پناہ گزين احد سن 2015 کے موسم گرما ميں اپنا آبائی ملک چھوڑتے وقت اس بات سے نا آشنا تھا۔ احد کا ارادہ تھا کہ وہ تنہا سفر کر کے جرمنی پہنچے گا اور پھر سياسی پناہ حاصل کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کو بھی وہاں بلا لے گا۔ اس وقت احد کے چار بچے تھے، جن ميں سب سے چھوٹی اس کی دو ماہ کی بيٹی تھی۔

اس بات کو اب دو برس بيت گئے ہيں اور احد کی وہ بيٹی جو اپنے والد سے جدائی کے وقت اسے پہچان تک نہيں سکتی تھی، اب چلنے پھرنے لگی ہے۔ احد جرمن دارالحکومت برلن کا رہائشی ہے۔ احد کے بچے اسے صرف موبائل فون کی اسکرين پر ہی ديکھ سکتے ہيں۔ ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کا طويل مرحلہ ان کے ليے بھی اتنا ہی مشکل ثابت ہوا، جتنا کہ احد کے ليے۔ اس شامی تارک وطن کو سترہ ماہ کے طويل انتظار کے بعد بالآخر جرمنی ميں سياسی پناہ مل گئی۔ يوں وہ اپنے اہل خانہ کو ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کے ليے جرمنی بلانے کے ليے درخواست دينے کا اہل ہو گيا ليکن يہ اس ايک خاندان کو درپيش رکاوٹوں کا اختتام نہ تھا۔ احد کی اہليہ کو لبنانی دارالحکومت بيروت ميں جرمن سفارت خانے سے ملاقات کا وقت حاصل کرنے ميں ايک سال کا وقت لگ گيا۔ پھر رواں سال اگست ميں اسے وقت ملا اور وہ اپنے اور اپنے بچوں کے تمام دستاويزات لے کر وہاں پہنچی۔

اپنے اہل خانہ سے اس طرح دور رہنا جرمنی ميں موجود ہزارہا مہاجرين کے ليے ايک تلخ حقيقت ہے۔ احد کی طرح کے سينکڑوں تارکين وطن قانونی جھميلوں اور انتظامی تاخير کے سامنے بے بس ہيں۔ اس دوران چند پيچيدگياں بھی نمودار ہو گئيں۔ جرمن حکومت نے گزشتہ سال يہ فيصلہ کيا کہ عارضی پناہ يا ’سبسڈری پروٹيکشن‘ کے حامل مہاجرين کو اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کا حق نہيں۔ ابتداء ميں پابندی کی مدت مارچ سن 2018 تک تھی تاہم وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے اس سال اگست ميں بيان ديا تھا کہ اس کی مدت ميں توسيع بھی کی جا سکتی ہے۔

’سبسڈری پروٹيکشن‘ کے حامل مہاجرين کو ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کا اختيار نہ دينے پر برلن حکومت کافی تنقيد کی زد ميں بھی رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ايک مشترکہ پريس کانفرنس ميں ہيومن رائٹس گروپ ’پرو ازيل‘ اور ايمنسٹی انٹرنيشنل نے حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ اس قانون ميں تبديلی کرے۔

جرمنی ميں اس سال مئی کے اختتام پر ’سبسڈری پروٹيکشن‘ کے خلاف دائر کردہ کيسوں کی تعداد لگ بھگ ستر ہزار تھی، جن کی اکثريت شامی شہريوں کی جانب سے دائر کرائی گئی تھی۔

انضمام، ملازمت اور تعليم کے ليے جرمن کمپنياں کس طرح مدد کر رہی ہيں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید