1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں پناہ کی کچھ درخواستوں پر فيصلے، غلطيوں کا ثبوت

عاصم سلیم
5 مئی 2017

جرمنی ميں ايک فوجی خود کو مہاجر بتانے کے بعد کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ اسے حراست ميں لے ليا گيا۔ يہ کيس اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والے حکام سے کوتاہياں بھی ہوئی ہيں۔

https://p.dw.com/p/2cTvy
Registrierung von Flüchtlingen Fingerabdruck
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reichel

جرمن فوج کے اہلکار اٹھائيس سالہ ليفٹيننٹ فرانکو البريشٹ نے خود کو شامی دارالحکومت دمشق ميں پھل فروخت کرنے والا بتاتے ہوئے اپنے ہی ملک ميں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔ حيران کن بات تو يہ ہے کہ عربی زبان کا ايک لفظ تک نہ آنے کے باوجود ان کی درخواست جمع ہو گئی اور اس پر کارروائی بھی جاری رہی۔

اسی  دوران انہيں نہ صرف رہائش کے ليے ايک کيمپ ميں جگہ بلکہ ماہانہ قريب چار سو يورو بھی ديے جا رہے تھے۔ اس معاملے کی تفتيش کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ البريشٹ دائيں بازو اور مہاجرين مخالف جذبات کے حامل ہيں اور وہ در اصل کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، جس کا الزام وہ مہاجرين پر ڈالنا چاہتے تھے۔

ايک بالکل ہی مختلف واقعے ميں ایک شامی پناہ گزين محمد حماد کو گزشتہ سال اکتوبر ميں دو خط موصول ہوئے۔  پہلے سرکاری دستاويز ميں اسے بتايا گيا کہ اس کی سياسی پناہ کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور اسے جرمنی میں تين سال قيام کی اجازت ہے اور اسے يہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلا سکے۔

 کچھ ہی روز بعد اسے ايک اور خط موصول ہوا، جس ميں اسے جزوی پناہ دی گئی اور يہ حق بھی نہيں دیا گیا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو بلوا سکے۔ دريافت کرنے پر متعلقہ حکام نے اسے بتايا کہ پہلا خط صرف مسودہ تھا اور اس کی کوئی حيثيت نہيں۔

يہ دو مثاليں بنيادی طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہيں کہ اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران متعلقہ حکام سے غلطياں بھی سرزد ہوئی ہيں۔

سن 2015 ميں جب مہاجرين کا بحران اپنے عروج پر تھا تو ہر ہفتے ہزاروں کے تعداد ميں تارکين وطن جرمنی پہنچ رہے تھے۔ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) پر دباؤ  اچانک بڑھ  گيا۔ ادارے کو بڑی تعداد ميں مہاجرين کے انٹرويو لينے اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے ليے اضافی عملہ رکھنا پڑا۔ BAMF کی افرادی قوت تين ہزار سے سات ہزار تين سو تک جا پہنچی۔ ضرورت پوری کرنے کے ليے جغرافيہ کے ماہرين، اکاؤنٹنٹس حتیٰ کہ سابقہ فوجيوں تک کو اس کام کے ليے رکھا گيا۔ عملے کی تربيت کے عرصے کو بھی چودہ ہفتوں سے گھٹا کر صرف دس دن کر ديا گيا۔ يوں نا تجربہ کار اور کم عرصے ميں تربيت حاصل کرنے والے عملے سے غلطياں قابل فہم بات ہے۔

اضافی عملے کے باوجود پچھلے سال تک BAMF کے پاس ساڑھے چار لاکھ درخواستوں پر کارروائی ہونا باقی تھی۔ نتيجتاً کسی پناہ گزين کو اپنی درخواست کے جواب کے ليے ايک ايک سال يا اس سے بھی زيادہ عرصے تک انتظار کرنا پڑا۔ جرمنی ميں پروٹيسٹنٹ چرچ کی سماجی تنظيم ’ڈياکونی‘ کے سباستيان لڈوگ کا کہنا ہے کہ پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ميں کواليٹی يا معيار کی کوئی اہميت نہيں، تعداد کی اہميت ہے۔

اس سلسلے ميں ايک اور مسئلہ مترجموں کا ہے۔ کئی ايسے کيسز بھی سامنے آئے کہ جب پناہ گزينوں کا انٹرويو لينے والے مترجم کو زبان پر عبور اس معيار کا نہيں تھا، جيسا کہ اس پيچيدہ قانونی کام کے ليے درکار ہوتا ہے۔ ميونخ کے ايک وکيل ہوبرٹ ہائن ہولڈ کے مطابق کئی مرتبہ پناہ کی درخواستوں پر فيصلہ ايسے لوگ کرتے ہيں، جنہيں متعلقہ قانون کے بارے ميں کچھ پتہ نہيں ہوتا۔

مہاجرين کے حقوق کے ليے سرگرم ايک گروپ ’پرو ازيل‘ نے بھی انتظامی مسائل پر کڑی تنقيد کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں