جرمنی ميں پناہ گزينوں کی رہائش گاہوں پر سينکڑوں حملے
18 نومبر 2015خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن پوليس کے اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کے آغاز سے سولہ نومبر تک ايسے واقعات کی تعداد 715 ہے۔ گزشتہ سال کے دوران پناہ گزينوں کے خلاف ايسے حملوں کی کُل تعداد 199 تھی۔
تارکين وطن کے خلاف وارداتوں کی تعداد ميں واضح اضافہ اِس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ يورپ کی سب سے بڑی معيشت کے حامل ملک ميں مہاجرين کی بڑی تعداد ميں مسلسل آمد کے نتيجے ميں يہاں ’مہاجرين مخالف‘ جذبات بھی بڑھ رہے ہيں۔ اندازوں کے مطابق رواں سال کے اختتام تک شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور چند شمالی افريقی ممالک سے سياسی پناہ کے ليے جرمنی آنے والوں کے تعداد قريب ايک ملين تک پہنچ سکتی ہے۔
جرمن حکام کے مطابق تحقيقات ميں سامنے آيا ہے کہ پناہ گزينوں کی رہائش گاہوں پر حملوں ميں سے 640 کيسز ميں دائيں بازو کی ترجيحات کے حامل افراد يا گروپوں کا عمل دخل ہے جب کہ 75 وارداتوں ميں تاحال مقاصد کا تعين نہيں کيا جا سکا۔ 56 وارداتوں ميں مہاجرین کی عارضی رہائش گاہوں کو نذر آتش کيا گيا جب کہ آٹھ کيسز ميں ایسا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ برس پناہ گزينوں سے متعلق کیمپوں کو نذر آتش کرنے کے کُل چھ واقعات رپورٹ کيے گئے تھے۔ جنوری 2015ء ميں يوميہ بنيادوں پر ايسے واقعات کی اوسط تعداد ايک تھی، جو نومبر ميں تين ہے، يعنی ہر روز تين ايسے واقعات رونما ہوتے ہيں۔
جرمن حکام کے مطابق انتہائی دائيں بازو کے گروپ سوشل ميڈيا پر مہم چلاتے ہوئے پناہ گزينوں کے حوالے سے خوف پھيلانے کو کوشش کر رہے ہيں۔ ان کے بقول متعدد حملے انٹرنيٹ پر جاری ايسی ہی مہمات کا نتيجہ ہو سکتے ہيں۔ حکام نے اس بارے ميں مزيد وضاحت کے ليے بتايا ہے کہ ايسی وارداتوں ميں ملوث ہونے کے شبے ميں زير حراست ليے جانے والے دو تہائی ملزمان پہلے سے جرمن پوليس کی نظروں ميں تھے، جو انتہا پسندوں کی کڑی نگرانی کرتی ہے۔