1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مہاجرين کے کيمپوں ميں جنسی جرائم، الزام یا حقيقت

عاصم سليم7 اکتوبر 2015

جرمن پوليس کی يونين اور عورتوں کے حقوق کے ليے سرگرم چند گروپوں نے حکام پر الزام عائد کيا ہے کہ وہ مہاجرين کے کيمپوں ميں جنسی جرائم کے مبينہ واقعات کو مہاجرين کے خلاف شديد رد عمل کے خوف کی وجہ سے زيادہ اہميت نہيں دے رہے۔

https://p.dw.com/p/1Gjle
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt

جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ نيوز ايجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پوليس يونين کے سربراہ رائنر وينڈٹ کا ماننا ہے کہ جرمن رياستوں کے حکام مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں عورتوں کو ہراساں کيے جانے يا ان پر تشدد کے واقعات کو نظر انداز کر رہے ہيں۔ انہوں نے روئٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ قابل فہم ہے کہ چيزوں کو سياسی لحاظ سے پر سکون بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ تاہم وينڈٹ اور عورتوں کے حقوق کے ليے سرگرم چند گروپوں کے خيال ميں اس مسئلے کو نظر انداز کرنے سے يہ بگڑ سکتا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اس وقت اس معاملے کو جس انداز ميں پيش کيا جا رہا ہے وہ حقيقت کی عکاسی نہيں کرتا۔

يہ امر اہم ہے کہ جرمنی ميں مہاجرين کی ريکارڈ تعداد ميں آمد سے رائے عامہ تبديل يا سخت تر ہو رہی ہے۔ مہاجرين کی اکثريت مسلمانوں کی ہے، جو خانہ جنگی کے شکار ملک شام اور ديگر شورش زدہ ملکوں سے جرمنی کا رخ کر رہے ہيں۔ حکام کی يہی کوشش ہے کہ انتہائی دائيں بازو کے مقامی گروپوں کو مہاجرين کے خلاف ممکنہ تشدد کے مواقع میسر نہ آئیں۔

اس کے برعکس جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے کہا ہے کہ مہاجرين کے کيمپوں ميں ہراساں کيے جانے کے حوالے سے انٹرنيٹ پر لاتعداد افواہيں پھيلائی جا رہی ہيں۔ انہوں نے شہريوں پر زور دے کر کہا کہ وہ جرمنی آنے والے ہزارہا مہاجرين کو شک کی نگاہ سے نہ ديکھيں۔ ميزيئر نے برلن ميں نيوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزيد کہا، ’’وفاقی حکام ايسے واقعات کی چھان بين کر رہے ہيں اور اکثر اوقات افواہوں ميں حقيقت نہيں ہوتی۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ ايسے واقعات پر تنقيد کی جا سکتی ہے تاہم يہ اجتماعی طور پر مہاجرين پر شک کی وجہ نہ بنيں۔

Deutschland Saalfeld Brand in Unterkunft für Asylbewerber
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reichel

واضح رہے کہ مہاجرين کے کيمپوں ميں ہراساں کيے جانے، جنسی تشدد، حتٰی کہ زيادتی تک کے مبينہ واقعات کے حوالے سے اعداد و شمار دستياب نہيں۔ پوليس يونين کے سربراہ رائنر وينڈٹ کے مطابق کئی واقعات کی رپورٹيں اس ليے بھی سامنے نہيں آتيں کيونکہ عورتيں اس نوعيت کی شکايات کرنے سے گريز کرتی ہيں۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق جنسی جرائم کے متاثرين اکثر خوف اور شرم کے احساسات کی وجہ سے شکايات درج نہيں کراتے۔

جرمن رياست ہيسے ميں سرگرم امدادی تنظيم Paritaetischer Bund سے وابستہ Barbara Helfrich کا کہنا ہے کہ چند خواتين شکايات درج کرانے کے معاملے ميں آگے بڑھی ہيں۔ انہوں نے روئٹرز کو بتايا کہ ايڈوائزری گروپوں اور غير سرکاری تنظيموں کے ذرائع سے عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کی چند قابل اعتبار رپورٹيں سامنے آئی ہيں۔ ايک حاليہ خط ميں چند امدادی تنظيموں نے الزام عائد کيا کہ ايک رياست ميں قائم ايک کيمپ ميں جنسی زيادتی سميت جنسی تشدد اور جبری جسم فروشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہيں۔

جرمنی کے شمالی شہر ہيمبرگ ميں رواں سال کے دوران مہاجرين کے کيپموں ميں جنسی جرائم کے آٹھ واقعات کی تصديق ہو چکی ہے۔ جرمن اپوزيشن کی گرين پارٹی ميں مہاجرين سے متعلق معاملات کی ترجمان Tuelin Akkoc يہ تسليم کر چکی ہيں کہ انتہائی دائيں بازہ کے گروپ ايسی رپورٹوں کو منفی انداز ميں استعمال کر سکتے ہيں۔ تاہم ان کے بقول اس کی بھی ضرورت نہيں کہ اس معاملے کو دبا ديا جائے۔

جرمنی پہنچنے والے مہاجرين ميں 70 فيصد مرد ہيں۔ چند گروپوں نے عورتوں کے ليے مختلف اور زيادہ محفوظ پناہ گاہوں کا مطالبہ بھی کيا ہے۔ توقع ہے کہ رواں برس جرمنی ميں مجموعی طور پر قريب آٹھ لاکھ مہاجرين کی آمد متوقع ہے۔