1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مہاجرین کے لیے ملازمت، ایک یورو فی گھنٹہ

امتیاز احمد16 مئی 2016

جرمنی میں ہزاروں مہاجرین کو ایک یورو فی گھنٹہ کے حساب سے ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ زیادہ تر مہاجرین فلاحی کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں لیکن اجرت اتنی کم کیوں ہے؟

https://p.dw.com/p/1IoTn
Deutschland Ellwangen Ein-Euro Jobs für Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Kastl

تئیس سالہ زید ایک عراقی مہاجر ہے اور اس وقت برلن سٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اسے برلن کے اس اسپورٹس ہال میں ملازمت دی گئی، جہاں اس وقت تقریبا ڈیڑھ سو شامی، عراقی اور افغان مہاجرین موجود ہے اور اس کا کام ان کے لیے کھانا پکانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

زید کی طرح ہزاروں مہاجرین کو سائیکلوں کی مرمت، پودوں کی کٹائی اور صفائی کی ملازمتیں دی گئی ہیں اور انہیں اجرت کے طور پر صرف ایک یورو فی گھنٹہ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس نام نہاد ’’ایک یورو جاب‘‘ کو مہاجرین کے لیے روزگار کی منڈی میں داخل ہونے کے راستے کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن تجزیہ کار اس پروگرام کے بارے میں شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔

ان مہاجرین کو ایک ہفتے میں بیس گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح مہینہ بھر کام کرنے کے بعد بھی زید تقریبا صرف چوراسی یورو کما سکتا ہے۔

جرمن شہریوں کے مقابلے میں زید کی تنخوا انتہائی کم ہے لیکن زید کا اس بارے میں مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس ملازمت کے ذریعے مجھے جرمن رضاکاروں سے بات چیت کرنے اور ان کے ساتھ جرمن بولنے کا موقع مل رہا ہے۔‘‘

Deutschland Berlin Ein-Euro Jobs für Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen

زید نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست دے رکھی ہے اور ابھی تک اس کی درخواست سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی درخواستوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ ہونے میں مہینے لگ سکتے ہیں اور اس دوران ان مہاجرین کو کام کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکام نے ’’ون یورو جاب‘‘ کی پیش کش کی ہے کیونکہ اس طرح وہ باقاعدہ ملازمت کی بجائے رضاکارانہ کام کے قانون کے تحت ملازمت کر سکتے ہیں۔

اس وقت دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ چار ہزار مہاجرین ’’ون یورو جاب‘‘ کر رہے ہیں جبکہ صوبہ باویریا میں ایسی ملازمتیں کرنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباﹰ نو ہزار ہے۔ اسی طرح ہینوور شہر میں نئے آنے والے مہاجرین کو سائیکلوں کی مرمت کا کام سکھایا جارہا ہے یا پھر یہ بچوں کے اسکولوں میں کام کے بدلے جرمن زبان سیکھ رہے ہیں۔

جرمنی کی خاتون وزیر محنت آندریا ناہلیز کے مطابق وہ مہاجرین کے لیے ایسی ایک لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا چاہتی ہیں اور یہ ملازمتیں ان کو روزگار کی منڈی میں داخل ہونے کے لیے بنیاد فراہم کریں گی۔

دوسری جانب جرمن فیڈریشن یونینز کے سربراہ رائنر ہوفمان اس طرح کی ملازمتوں کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کو جرمن معیشت میں ضم کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد پروگرام کی ضرورت ہے۔