1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: میئر کا مساجد کو مفت جگہ دینے کا منصوبہ، لیکن؟

عدنان اسحاق 30 اگست 2016

جرمن شہر مونہائم کے میئر دو مسلم تنظیموں کو مساجد بنانے کے لیے زمین مفت دینا چاہتے ہیں لیکن اس منصوبے کی وجہ سے انہیں تنقید کا بھی سامنا ہے۔ اب اس حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث مباحثے کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Js1h
تصویر: DW/W. Dick

مونہائم میں ترک نژاد شہریوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور یہ لوگ شوق سے اس شہر میں رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے شہر کے 34 سالہ میئر ڈانیئل سِمرمان مساجد کے لیے زمین مفت دینے کے اپنے منصوبے پر اڑے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اکثر مساجد میں ان لوگوں کا مہمان رہا ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ مسجدوں میں جگہ کتنی تنگ ہے‘‘۔

مونہائم کی 43 ہزار کی آبادی میں سے 15 فیصد مسلمان ہیں۔ سمر مان مزید کہتے ہیں کہ شہر کی مسلم برادری کے ارکان میں گزشتہ برسوں کے دوران نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے:’’مونہائم میں دو ایسی مساجد کی ضرورت ہے، جن میں نمازیوں اور دیگر تقریبات کے لیے مناسب جگہ ہو۔ ایسی مساجد کو صنعتی علاقوں، گھروں یا ایسی جگہوں پر تعمیر نہیں کیا جا سکتا، جہاں گاڑیاں کھڑی نہ کی جا سکتی ہوں‘‘۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ عبادت گاہیں شہر کے مرکز میں ہوں تاکہ معاشرتی انضمام بہتر انداز میں ممکن ہو۔

Deutschland Monheim Streit um Grundstücke für islamische Gemeinden
’’یہ کچھ لو اور کچھ دو والا ایک سودا ہے، سمر مانتصویر: DW/W. Dick

حال ہی میں کرائے جانے والے ایک جائزے میں شہر کے زیادہ تر عمر رسیدہ افراد کا کہنا تھا، ’’ہمیں بھی مفت میں کچھ نہیں ملتا، ان لوگوں کو جنگل میں چلے جانا چاہیے۔‘‘ مساجد کی تعمیر کے موضوع پر انتظامیہ نے ایک اجلاس بھی منعقد کیا تھا، جس میں شہریوں نے اس منصوبے کی حمایت اور مخالفت میں دلائل دیے تھے۔ یہ اجلاس پر امن انداز میں اختتام پذیر ہوا تاہم اس میں فیصلہ کیا گیا کہ کئی معاملات ایسے ہیں، جن کی ابھی مزید وضاحت ضروری ہے۔

شہری انتظامیہ نے اس سلسلے میں کچھ شرائط بھی رکھی ہیں۔ ان میں آئین کی پاسداری، دوسرے مذاہب کا احترام اور انضمام کے مختلف منصبوں میں شرکت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مونہائم کی ایک مسلم شہری راشدہ ان شرائط کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان کے بقول،’’اگر یہ شرائط تسلیم کر لی جائیں تو انتظامیہ کوئی بھی بہانہ کر کے مساجد کے لیے مخصوص جگہ ہم سے چھین سکتی ہے اور اس طرح ہماری جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری بھی ضائع ہو جائے گی۔‘‘ تاہم شہر کے میئر سمر مان کہتے ہیں، ’’یہ کچھ لو اور کچھ دو والا ایک سودا ہے‘‘۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ میئر اس طرح مساجد میں ہونے والی سرگرمیوں پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔

بہرحال اس سے قطع نظر کہ اس معاملے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ پیغام بالکل واضح ہے کہ شہر کے زیادہ تر لوگ انضمام کے حق میں ہیں۔ شہری کونسل ستمبر کے آخر تک مساجد کے لیے زمین کے مطالبے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرے گی۔