1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں اب کن مہاجرین کو پناہ دی جائے گی؟

عاطف توقیر
18 مارچ 2017

جرمن میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق حکام جرمنی میں داخل ہونے والے نئے مہاجرین کی جانچ پڑتال کے عمل میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سختی لے آئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ZTUo
Deutschland Abschiebungen abgelehnter Asylbewerber in Leipzig
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

میڈیا رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ داخلی سلامتی کے محکمے کے کئی اہلکار مہاجرین اور پناہ گزینوں کے وفاقی دفتر کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور سیاسی پناہ کے نئے درخواست گزاروں کی سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی درخواستیں منظور کرنے سے قبل انہیں کئی بار انٹرویوز کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور ایسے تارکین وطن جو شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچنے ہوں، ان کی جانچ پڑتال کا عمل اور بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔

جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق موصل اور رقہ کے علاقوں سے آنے والے مہاجرین کی جانچ پڑتال دیگر تارکینِ وطن کے مقابلے میں کئی گنا سخت ہے۔

اشپیگل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمن دفتر برائے تحفظ آئین نے تارکین وطن کی ’تعلیم و تربیت‘ کے لیے سن 2019ء تک مزید ڈھائی سو افراد کو بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ یہ افراد بھی جرمن دفتر برائے مہاجرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ جرمن دفتر برائے تحفظ آئین نے تصدیق کی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مزید افراد بھرتی کرے گا، تاہم اس حوالے سے ان کی حتمی تعداد نہیں بتائی گئی۔

Afghanistan Ankunft aus Deutschland abgeschobene Asylbewerber
ماضی کے مقابلے میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی جانچ پڑتال کا عمل سخت کر دیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/C. Röhrs

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس وقت تک رائج ضوابط کے مطابق جب تک دفتر برائے مہاجرین کے اہلکار سیاسی پناہ کے کسی درخواست گزار پر شک کا اظہار نہیں کرتے تھے، جرمنی کی داخلی سکیورٹی سے متعلق افراد ایسے کسی تارک وطن کی جانچ پڑتال شروع نہیں کرتے تھے، تاہم اب ان دونوں اداروں کے درمیان تعلق اور معاونت کو مزید وسعت دی گئی ہے۔

جرمن میڈیا کے مطابق ملکی حکومت اب ایک طرح سے یہ تسلیم کرتی جا رہی ہے کہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ جہادیوں کو مہاجرین کے روپ میں یورپ بھیج رہی ہے۔ گزشتہ برس جرمن شہروں وُرسبرگ، انس باخ اور برلن میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو ہدایات براہ راست ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ افراد سے حاصل ہوئی تھیں۔

اسی تناظر میں بعض جرمن سیاست دانوں نے مہاجرین پر ’عمومی شبے‘ کو خطرناک عمل قرار دیا ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جرمن خفیہ سروسز کے اہلکاروں کو سیاسی پناہ کی درخواستوں سے متعلق پورے عمل میں شامل رہنا چاہیے۔