1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں انسداد دہشت گردی کا نیا قانون منظور

مارسیل فیُورسٹے ناؤ / مقبول ملک13 نومبر 2008

وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں نے بدھ کےشام بحث کے بعد انسداد دہشت گردی کے ایک نئے قانون کی منظوری دے دی ۔ جس کے تحت جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی دفتر BKA کو سرکاری طور پر ایک باقاعدہ محکمہ بنا دیا گیاہے۔

https://p.dw.com/p/FtiT
اس نئے مسودہ قانون کی منظوری اتنی متنازعہ تھی کہ پارلیمان میں رائے شماری سے پہلے، برلن میں رائیش ٹاگ کی عمارت کے سامنے اپوزیشن سیاستدانوں کی طرف سے باقاعدہ پلے کارڈز اور بینروں کے ساتھ اس مجوزہ قانون کی مخالفت بھی کی گئیتصویر: AP

جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی جرمن دفترکو ایک باقاعدہ محکمہ بنانے سے متعلق مسودہ قرارداد پرنام لے کر رائے شماری سے پہلے بہت گرما گرم بحث ہوئی کیونکہ اس سے پہلے تک جرمنی میں یہ کام ملکی خفیہ اداروں کی ذمےداری تھا اور BKA کا کام صرف جرائم کی تحقیقات کرنا تھا۔

اب یہ نیا محکمہ پورے اختیارات کے ساتھ دہشت گردوں کا پیچھا کرسکے گا،اور اُسے شدید نوعیت کے جرائم یا ٹھوس قسم کے خطرات کی صورت میں مشتبہ افراد کے نجی کمپیوٹرز تک کی اون لائن تلاشی لینے کا متنازعہ اختیار بھی حاصل ہوگا۔ ایسے کسی اقدام سے پہلے BKA کے اہلکاروں کو قانون کے مطابق، عدالتی اجازت نامہ بھی درکار ہوگا۔

Belgien EU Brüssel EU-Innenministerrat zu Einwanderungspolitik
جرمن وزیر داخلہ نے پارلیمان میں یہ مئوقف اختیار کیاکہ اس نئے قانون کا مقصد دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں معلومات کے بروقت حصول کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ بین الاقوامی دہشت گردی کا سامنا جرمنی کو بھی کرنا پڑرہا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

اس نئے مسودہ قانون کی منظوری اتنی متنازعہ تھی کہ پارلیمان میں رائے شماری سے پہلے، برلن میں رائیش ٹاگ کی عمارت کے سامنے اپوزیشن سیاستدانوں کی طرف سے باقاعدہ پلے کارڈز اور بینروں کے ساتھ اس مجوزہ قانون کی مخالفت بھی کی گئی جس کے محرک جرمن وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے ہیں۔

اس بارے میں یہ کہتے ہوئے کہ جب قانون ناانصافی بن جائے، تو اُس کی مخالفت ذمے داری بن جاتی ہے، ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کی سربراہ کلاؤڈیا روٹھ نے کہا: "یہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ اسے اور کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔"

اس کے برعکس جرمن وزیر داخلہ نے پارلیمان میں یہ مئوقف اختیار کیاکہ اس نئے قانون کا مقصد دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں معلومات کے بروقت حصول کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ بین الاقوامی دہشت گردی کا سامنا جرمنی کو بھی کرنا پڑرہا ہے۔ وولف گانگ شوئبلے نے کہا: "مثال اگر خود کُش حملہ آوروں کی لی جائے تو اُن کے خلاف ارتکاب جرم کے بعد کارروائی زیادہ فائندہ مند ثابت نہیں ہو گی۔اس لئے ہم مجبور ہیں کہ شدید نوعیت کے جرائم کے ارتکاب کو قبل ازوقت ناکام بنا دیں۔"

نئے قانون کے تحت اب سرکاری محکمہ بنا دیئے جانے والے جرائم کی تحقیقات کے وفاقی دفترکو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ مشتبہ افراد کی رہائش گاہوں کی آڈیو اور ویڈیو دونوں ذرائع سے نگرانی بھی کرسکے گا۔ اس اختیار کو جرمن خفیہ سروسBND کے ایک سابق سربراہ ہانس یورگ گائیگر غیر قانونی سمجھتے ہیں کیونکہ قانون کے تحت اپنی نجی رہائش گاہ میں کسی بھی شخص کو یہ خوف نہیں ہونا چاہیئے کہ ریاستی ادارے اُس کے گھر کی چار دیوانی کے اندر اُس کے رویئے کی نگرانی کررہے ہیں۔

برلن میں وفاقی مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کی تائید سے منظور کئے گئے اس متنازعہ مسودہ قانون کی لیفٹ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کی طرف سے بھی زبردست مخالفت کی گئی۔ اس پر BKA کے صدر Jörg Ziercke کا مئوقف یہ ہے کہ یہ دفتر یا نیا محکمہ پولیس کا ایک ادارہ ہے،اور مسلح حملوں کے خطرات کی قبل از وقت روک تھام کرتے ہوئے بھی وہ پولیس ہی کا ایک محکمہ ہوگا، جو جج حضرات کی طرف سے تحفظات کے اظہار کے باوجودبھی، مجرمانہ نوعیت کے واقعات کی قبل از وقت روک تھام کے حوالے سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا پابند ہوگا۔

پارلیمان میں اس نئے قانون کی منظوری کے باوجود، ابھی اس بارے میں سیاسی تنازعہ پوری طرح ختم نہیں ہوا، کیونکہ جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی، ترقی پسندوں کی FDP اور شاید بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی بھی، سبھی جماعتیں اس نئی قانون سازی کے خلاف وفاقی آئینی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کاارادہ رکھتی ہیں۔