1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں جنونی نوجوان کی فائرنگ، وجوہات کیا تھیں؟

13 مارچ 2009

جرمنی ميں ايک اسکول ميں ايک طالب علم کی اندھادھند فائرنگ اوراس کے نتيجے ميں ہونے والی اموات کے بعد اس کی وجوہات اورروک تھام کے اقدامات کے بارے ميں بحث زور شور سے جاری ہے ۔

https://p.dw.com/p/HBSi
اس واقعے میں سولہ افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: AP

کئی حلقے يہ مطالبہ کررہے ہيں کہ انٹرنيٹ اورٹی۔ وی پر مار دھاڑاورقتل کی فلمز اورگيمز کو بند کيا جائے۔

جرمنی کے وفاقی صوبے بادن وورٹمبرگ کے ايک چھوٹے سے مقام ونينڈن کے ايک اسکول ميں ايک سترہ سالہ لڑکے کی اندھا دھند فائرنگ کے بعد يہ بحث ملک کے تمام حلقوں ميں جاری ہے کہ ايک نوجوان نے يہ سفاکانہ اور وحشيانہ کام کيوں کيا ۔ متعلقہ حکام اس معمے کو حل کرنے ميں سرگردان ہيں اور اسی سلسلے ميں اس نوجوان قاتل کے کمپيوٹر پر کاؤنٹراسٹرائک اوردوسرے قاتلانہ گيمزملے ہيں۔ اس تناظر ميں بہت زيادہ ماردھاڑوالے اور وحشيانہ کمپيوٹر گيمز کو ممنوع قرار دينے کے مطالبات کئے جارہے ہيں۔

پوليس کا کہنا ہے کہ مجرم کے کمپيوٹر پرملنے والے گيمز، ايک اندھا دھند قتل کرنے والے کی شخصيت سے عين مطابقت رکھتے ہيں۔ جرمنی کے صوبے باويريا کے وزيرداخلہ نے کہا:’’ايسے بہت سے وحشيانہ کمپيوٹر کھيل ہيں جن ميں خود کھيلنے والا بھی مار دھاڑ کرنے والے کا رول ادا کرتا ہے اور خود اپنا تشخص ايک ايسے فرد کے طور پرکرتا ہے جو دوسرے انسانوں پر بے رحمی سے گولياں چلاتا ہے۔ ميرے خيال ميں اس قسم کے گيمز کو ممنوع ہونا چاہئے۔‘‘

Amoklauf Winnenden
اسکول کے بچے قتل ہونے والے اپنے ساتھیوں کے لئے موم بتیاں روشن کر رہے ہیںتصویر: AP

جرمنی ميں اب تک يہ ضابطہ ہے کہ پرتشدد مناظر والے کمپيوٹرکھيلوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اورضرورت ہو توانہيں نوجوانوں کے لئے ممنوع قراردے ديا جاتا ہے۔ ليکن يہ ضابطہ زيادہ کارگر نہيں ہے۔ جرمنی کی جرائم کے انسداد کی فاؤنڈيشن نے بھی مکمل ممانعت کا مطالبہ کيا ہے۔

تاہم يہ واضح نہيں ہے کہ انٹرنيٹ سے ڈاؤن لوڈ کو کس طرح سے روکا جاسکتا ہے۔ جرمن وفاقی وزيرداخلہ کے خيال ميں اندھا دھند فائرنگ اورقتل کے ايسے جرائم کے پيچھے ايک معاشرتی مسئلہ پوشيدہ ہے۔

’’سوال يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں کيا مسائل ہيں۔ کيا ہميں اقدارکی تعليم پرزيادہ توجہ دينا چاہئے۔ کيا ہميں گھرانوں اور خاندانی رشتوں کو زيادہ مضبوط بنانا چاہئے۔ کيا ہمارے ذرائع ابلاغ ميں تشدد کے اظہار پر زيادہ پابندی کی ضرورت ہے۔‘‘

جرمنی کی صحافيوں کی ايسوسی ايشن نے اسکول ميں فائرنگ کی واردات کے اگلے دن ہی رپورٹنگ ميں احتيا ط کی اپيل کی اور کہا کہ سنسنی پھيلانے سے گريز کيا جائے۔ جرمن وزيرداخلہ اورپوليس کی ٹريڈ يونين کے چيرمين نے اسکولوں ميں دھاتی آلات کی شناخت کرنے والے ڈيٹيکٹرز نصب کرنے کی مخالفت کی۔ تاہم پوليس ٹريڈ يونين کے چيرمين نے کہا کہ طلباء اوراساتذہ کو چپ کارڈ دئے جانا چاہئيں۔ اس طرح اسکولوں کوچوری اور منشيات سے بھی پاک کيا جاسکتا ہے۔‘‘

جرمنی ميں سات سال پہلے ايرفورٹ کے اسکول ميں اسی طرح کے قتل عام کے بعد سے اسلحے کے ضوابط سخت کردئے گئے ہيں، ليکن ونينڈن کے سترہ سالہ حملہ آورکے والد نے اپنے اسلحے کی حفاظت کے ان ضوابط کی خلاف ورزی کی۔