1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں دائیں بازو کے نظریات، مفصل تحقیقات کی ضرورت ہے

14 نومبر 2011

ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار اُوٹے شیفر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں دائیں بازو کے واقعات پر سنجیدگی سے بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان واقعات کی تحقیقات جامع اور مفصل ہونی چاہیئں۔

https://p.dw.com/p/13AFk
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ نامی ایک گروپ پر شک ہے کہ وہ گزشتہ دہائی کے دوران ملک میں سلسلہ وار قتل اور ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اس مشتبہ نیو نازی گروپ کے مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں سے بھی روابط ہیں۔ جرمن حکومت نے گزرے دس برسوں کے دوران تارکین وطن کے پس منظر کے حامل نو افراد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کے قتل کے واقعات کی تحقیقات کی حکم دے دیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار اُوٹے شیفر کا کہنا ہے کہ ان واقعات پر سنجیدگی سے بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں گزشتہ دس برسوں کے دوران ملک کے مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے ایک گروپ نے دس افراد کو قتل کیا، جن میں سے زیادہ تر تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد تھے۔ ساتھ ہی اس گروپ نے کئی بینکوں میں ڈکیتیاں بھی کیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی ثبوت تو موجود نہیں ہیں لیکن یہ رپورٹ خوف میں مبتلا کر دینےکے لیے کافی ہے۔ ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار اُوٹے شیفر لکھتی ہیں کہ ان دس برسوں میں کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ قتل کی یہ سلسلہ وار وارداتیں منظم انداز میں کی گئیں اور یہ پر تشدد واقعات انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندانہ جذبات اور نفرت کا مظہر ہیں۔

Chefredakteurin Ute Schaeffer
جرمن معاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے، جو ذہنی طور پر تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہوں، اُوٹے شیفرتصویر: DW

اس حوالے سے شیفر سوال کرتی ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں قانون کی بالا دستی ہے، جہاں پولیس کے پاس جدید ذرائع اور ہر طرح کے وسائل موجود ہیں، یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہے؟ اس حوالے سے جرمن وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس دوران ایسے کوئی بھی ثبوت نہیں ملے، جن سے اندازہ ہوسکتا کہ یہ دائیں بازو کے کسی انتہا پسند گروپ کا کام ہے۔ ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار کے بقول اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ سلامتی کے ذمہ دار ادارے اپنی تمام تر توجہ مسلمان انتہاپسندوں پر مرکوز کیے ہوئے ہیں؟ کیا جرمن معاشرے میں دائیں بازو کے جذبات قابل قبول ہیں؟ یا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پولیس کے مخبر یا دیگر اہلکاروں نے اس حوالے سے حقائق سے پردہ پوشی کی ہو؟ اُوٹے شیفر کے بقول یہ وہ سوالات ہیں، جن کی وضاحت اب لازمی ہے۔ اور یہ عمل جلد از جلد اور مفصل انداز میں مکمل کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ جرمن حکومت نے ان واقعات کی اسی انداز میں تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔

جرمن معاشرے میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد بہت کم تعداد میں ہیں۔ لیکن ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے، جو ذہنی طور پر تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہوں اور جو خاموشی سے ایسے نظریات کے حامی بھی ہوں۔ اُوٹے شیفر کے بقول خطرہ یہ ہے کہ کہیں نیو نازی گروہ ان افراد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ ان کے بقول اس کا حل یہی ہے کہ عوامی اور سیاسی سطح پر اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔

تبصرہ: اُوٹے شیفر

ترجمہ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید