1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں لازمی فوجی سروس کے خاتمے کا منصوبہ

24 اگست 2010

وفاقی جرمن حکومت نے ملکی افواج ميں بڑے پيمانے پر کمی اور لازمی فوجی سروس غير معينہ مدت کے لئے معطل کرنے کا منصوبہ بنايا ہے۔ ملک کے بعض حلقوں ميں اس منصوبے کی شديد مخالفت کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/Ov69
جرمن فوجیتصویر: AP

جرمنی کا ’ليوپارڈ‘ نامی ٹينک وفاقی جرمن فوج کے لئے باعث افتخار ہے۔ فوج بڑے جوش سے اس تيزی سے مڑنے اور حرکت کرنے والے ٹينک کی نمائش کرتی ہے، جو کہ گولہ باری کے حوالے سے بھی بہت قابل اعتماد ہے۔

تاہم يہ ٹينک سرد جنگ کے زمانے ميں بنايا گيا تھا اور اسے غیر ممالک ميں کارروائی کے لئے نہيں بلکہ ملکی دفاع کے لئے تيار کيا گيا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے جرمن فوج اپنے ایسے ٹينکوں کی تعداد ميں خاصی کمی کرنا چاہتی ہے۔ يہی نہيں بلکہ فوج کی نفری کو بھی مجموعی طور پر کم کرنے اور اس ادارے ميں دور رس تبديليوں کی تجويز بھی زیر غور ہے۔

Verteidigungsminister Karl Theodor zu Guttenberg vor dem Reichstag in Berlin
جرمن وزير دفاع سُو گٹن برگ فوج کے انسپکٹر جنرل کے ہمراہتصویر: AP

جرمن وزير دفاع کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’اس منصوبے کے تحت بالآخر جرمن فوج کی نفری کم کر دی جائے گی۔ ليکن اس کے ساتھ ہی اسے بہتر بھی بنايا جائے گا اور اس کی عملی کارروائی کی صلاحيت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

جرمن وزير دفاع گٹن برگ کے منصوبے کے مطابق فوج کی مجموعی نفری ايک تہائی کمی کے بعد ايک لاکھ 60 ہزار کر دی جائے گی۔ يہ دوسری عالمی جنگ کے بعد 55 سال قبل وجود میں آنے والی موجودہ وفاقی جرمن فوج کی تاریخ کی سب سے بڑی تبديلی ہوگی۔

اس کے نتيجے ميں لازمی فوجی سروس کی ضرورت باقی نہيں رہے گی۔ اس کے باوجود لازمی فوجی سروس کو بالکل ختم نہيں کيا جائے گا بلکہ اسے صرف غير معينہ مدت تک کے لئے معطل کر دیا جائے گا۔ لازمی فوجی سروس کو جرمن معاشرے ميں ايک روايتی حيثيت حاصل ہے۔ ليکن بہت سے نوجوان فوج کے بجائے سوشل سروس کے شعبوں ميں خدمات انجام دينے کو ترجيح ديتے ہيں۔

Bundeswehr Ausrüstung Nachtsichtgeräte
رات کے دوران ديکھنے کے خصوصی آلات سے ليس جرمن فوجیتصویر: picture-alliance/ dpa

جرمن چانسلر انگیلا ميرکل اس بارے ميں کہتی ہیں: ’’ہم لازمی فوجی سروس کو اصولی طور پر ختم نہيں کريں گے کيونکہ ہميں معلوم نہیں کہ مستقبل ميں ہميں کن چيلنجوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘

وفاقی وزير دفاع کا تعلق چانسلر میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت کرسچئن سوشل يونين سے ہے۔ اس پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعت کرسچئن ڈيموکريٹک يونين کے قدامت پسند اراکين اس منصوبے کے شديد مخا لف ہيں۔ اب گٹن برگ کو ان اراکين کے علاوہ اپوزيشن کو بھی اپنے منصوبے کی افاديت کا قائل کرنے کا مشکل کام انجام دينا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں