1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مقیم مہاجر خواتین کو درپیش مشکلات

شمشیر حیدر Helena Weise
20 ستمبر 2017

جرمنی آنے والے مہاجرین کی ایک تہائی تعداد خواتین کی ہے تاہم ان خواتین کے جرمنی میں سماجی انضمام کے معاملے پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ مہاجر خواتین کے لیے سماجی مسائل کہیں زیادہ اور ان کے انضمام کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2kLe7
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے ہر تین مہاجرین میں سے دو مرد ہیں اور ایک عورت۔ زیادہ تر مردوں کی عمریں تیس برس سے کم ہیں اور وہ اکیلے جرمنی آئے ہیں۔ ان میں سے جن تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں اور وہ سماجی انضمام کے پروگراموں میں شرکت کر سکتے ہیں۔ انہیں جرمن زبان سیکھنے سمیت نوکری کی تلاش سے لے کر علیحدہ رہائش گاہ کی تلاش تک معاونت بھی ملتی ہے۔

مہاجر لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا جا سکتا ہے، آئی او ایم

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

لیکن مہاجر خواتین کا معاملہ مختلف ہے۔ جرمنی میں مہاجرت سے متعلق ادارے بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2015 میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں سے تیس فیصد خواتین تھیں جب کہ رواں برس ایسی خواتین کی تعداد چالیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ زیادہ تر تارک وطن خواتین ایسی ہیں جن کے اہل خانہ میں سے کوئی پہلے سے جرمنی میں موجود ہوتا ہے یا پھر وہ خاندان کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے جرمنی پہنچی ہیں۔ مہاجر خواتین کو سفر کے دوران اور جرمنی آنے کے بعد بھی جنسی تشدد سے لے کر غیرت کے نام پر قتل تک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

محفوظ رہائش گاہوں کی کمی

جرمنی میں مقیم مہاجر خواتین کو تعلیمی سہولیات، سماجی روابط اور محفوظ رہائش گاہ کی تلاش میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ جرمنی میں سماجی انضمام کی خاتون وزیر کے مطابق صرف رواں برس مہاجر خواتین کے ایسے مسائل حل کرنے کے لیے پانچ ملین یورو مختص کیے گئے ہیں۔

لیکن انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ مہاجر خواتین کو محفوظ رہائش گاہیں مہیا کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک کارکن جیسیکا موسباہی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کئی مہاجر خواتین کو اب بھی دیگر مہاجر مردوں یا مہاجرین کے مراکز میں کام کرنے والے مردوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہو جانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔‘‘

موسباہی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہاجرین کے مراکز میں ان خواتین کے لیے الگ رہائشی بندوبست بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے لیے محفوظ ٹوائلٹ موجود ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تارکین وطن کے لیے مختص مراکز میں اکثر لاقانونیت دیکھی جاتی ہے اور پولیس بھی ان مراکز پر نظر نہیں رکھتی۔

Deutschland Symbolbild Flüchtlinge Gewalt gegen Frauen und Kinder
جرمنی میں مہاجر بچوں کے لیے چائلڈ کیئر سہولیات کی فرہمی اسی برس شروع کی گئی ہےتصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

علاوہ ازیں بی اے ایم ایف نے مہاجرین کے لیے ’چائلڈ کیئر‘ سہولیات کی فراہمی بھی صرف چند ماہ قبل ہی شروع کی ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مہاجر خواتین بچوں کو چھوڑ کر زبان سیکھنے یا سماجی انضمام کے پروگراموں میں شرکت کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔

مہاجر مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ملازمتوں کے حصول کے مواقع بھی کم میسر ہوتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ شاید مہاجر خواتین ملازمت کی خواہش بھی کم رکھتی ہیں لیکن اس موضوع پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران جرمنی آنے والی مہاجر خواتین میں سے پچاسی فیصد سے بھی زائد ملازمت اختیار کرنا چاہتی ہیں۔

جرمنی چھوڑنے والے مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

نقاب جرمن معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتا، جرمن وزیر داخلہ

مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں