1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ’موٹی‘ خواتین نے اپنے الگ کلب بنا لیے

امجد علی6 ستمبر 2015

فربہ خواتین کے لیے الگ ڈانس پارٹیاں اور صرف ’موٹی‘ خواتین کے درمیان خوبصورتی کے مقابلے، یہ ہے جرمن میں نیا بڑھتا ہوا رجحان۔ جرمن نائٹ کلب ایسی خواتین کو اپنے کاروبار کے فروغ کے ایک نئے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GRq9
Fashion Week Berlin 2013
’بڑے قد کاٹھ اور وزن کی حامل خواتین خوبصورت ہوتی ہیں، خواہ وہ باقی سماج کے طے کردہ معیاراتِ حُسن پر پوری نہ بھی اترتی ہوں‘تصویر: picture-alliance/dpa/Ole Spata

ماہرینِ نفسیات اس نئے رجحان پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ رجحان معاشرے میں مختلف طبقوں کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کے اصول کے خلاف جاتا ہے کہ مختلف طبقے محض اپنی ہی طرح کے لوگوں کی صحبت میں خوش رہ سکتے ہیں۔

جرمن نیوز زایجنسی ڈی پی اے نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ حال ہی میں جرمنی کے مغربی حصے میں واقع شہر اوبرہاؤزن کے ایک نائٹ کلب میں ’مِس کَروی‘ کے نام سے ا یک نئی طرح کا ’مقابلہٴ حُسن‘ منعقد کروایا گیا۔ اس مقابلے میں شرکت کی واحد شرط یہ رکھی گئی تھی کہ ہر امیدوار خاتون کا بریزیئر سائز کم از کم چالیس (جرمنی میں مستعمل پیمانوں کی رُو سے) ہو۔

ایسا پہلا مقابلہ گزشتہ سال منعقد کیا گیا اور اس کا اہتمام کیا، میلانی ہاؤپٹ مان نے۔ اس خاتون آرگنائزر کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ بڑے قد کاٹھ اور وزن کی حامل خواتین خوبصورت ہوتی ہیں، خواہ وہ باقی سماج کے طے کردہ معیاراتِ حُسن پر پوری نہ بھی اترتی ہوں۔

اس سال اس مقابلہٴ حُسن میں بارہ سو امیدوار خواتین نے شرکت کی، جن میں سے پچاس کو حتمی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ان پچاس میں سے بھی بالآخر بارہ خواتین مقابلہٴ حُسن کی حتمی دوڑ میں شریک ہوئیں۔ میلانی ہاؤپٹ مان کے مطابق یہ مقابلہ اس امر کی دلیل ہے کہ اب جرمن معاشرے میں بڑے قد کاٹھ کی خواتین کو بھی قبول کیا جانے لگا ہے۔

Übergewicht und Magersucht Dicke und dünne Frauen am Strand
ماہرِ نفسیات اُووے ماشلائٹ کا کہنا ہے کہ جرمن سماج میں اب بھی زیادہ وزن کے حامل افراد کا شمار اُن طبقات میں ہوتا ہے، جنہیں سب سے زیادہ امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/S. Hesse

تاہم ماہرِ نفسیات اُووے ماشلائٹ کا کہنا ہے کہ جرمن سماج میں اب بھی زیادہ وزن کے حامل افراد کا شمار اُن طبقات میں ہوتا ہے، جنہیں سب سے زیادہ امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’مرد موٹا ہو تو اُسے جسیم اور متاثر کُن کہا جائے گا جبکہ عورت بڑے قد کاٹھ اور وزن کی ہو تو وہ صرف ’موٹی‘ کہلاتی ہے۔‘‘

ماہرِ نفسیات اُووے ماشلائٹ کے مطابق معاشرے کا سلوک بہت سی فربہ خواتین کو اتنا افسردہ کر دیتا ہے کہ وہ دنیا سے کٹ جاتی ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ رابطے بھی ختم کر دیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی خواتین کی محض ایک اقلیت ہی اس طرح کے خوبصورتی کے مقابلوں اور خصوصی ڈانس پارٹیوں سے لطف اندوز ہوتی ہے، زیادہ تر فربہ خواتین اس طرح کی خصوصی سرگرمیوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ اُنہیں معاشرے میں ’نارمل‘ انسانوں کے طور پر قبول کیا جائے۔ واضح رہے کہ جرمنی کی ایک چوتھائی آبادی کا وزن معمول سے زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید