1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں نئی حکومت کیسی ہو گی؟

عاطف بلوچ | شمشیر حیدر
25 ستمبر 2017

نئی جرمن پارلیمنٹ کے لیے چوبیس ستمبر بروز اتوار پولنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ ایگزٹ پولز کے مطابق قدامت پسند سیاستدان انگیلا میرکل اس انتخابی عمل میں کامیابی حاصل کرکے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بن جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/2kbcs
Bundestagswahl 2017 | CDU - Angela Merkel, Bundeskanzlerin
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach

اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

۔ چوبیس ستمبر کے وفاقی پارلیمانی انتخابات کے ایگزٹ پولز کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا قدامت پسند اتحاد (سی ڈی یو/ سی ایس یو) سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا ہے۔ تاہم سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات کے مقابلے میں اس اتحاد کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد نو فیصد کم ہوئی ہے۔

۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) بیس فیصد عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ہونے والے انتخابات میں اس بار یہ پارٹی اپنی مقبولیت کے نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

۔ اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی پہلی مرتبہ جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ایگزٹ پولز کے مطابق یہ پارٹی تقریبا دس فیصد عوامی حمایت کے ساتھ آئندہ جرمن پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔

۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) ایک مرتبہ پھر پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اندازوں کے مطابق اس پارٹی کو دس اعشاریہ پانچ فیصد عوامی تائید حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں یہ پارٹی پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ہی ناکام ہو گئی تھی۔

۔ ماحول دوست گرین پارٹی اور بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی بھی آسانی کے ساتھ پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی کارکردگی ویسی ہی رہی، جیسا کے انہوں نے گزشتہ الیکشن میں دکھائی تھی۔

 ۔ ایگزٹ پولز کے مطابق آئندہ جرمن حکومت سازی کی کوششوں میں انگیلا میرکل کی سیاسی پارٹی سی ڈی یو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

۔ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی نے عندیہ دیا ہے کہ کولیشن حکومت کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ اپوزیشن میں رہنا ہی پسند کرے گی۔

۔ سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی جرمن الیکشن کا ٹرن آؤٹ 71.5 فیصد رہا تھا جبکہ سن دو ہزار سترہ کے اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی شرح 75 فیصد رہی۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق سات سو نو نشستوں کی ممکنہ تقسیم

کرسچن ڈیمویٹک پارٹی / کرسچن سوشل یونین (سی ڈی یو/ سی ایس یو) :  246

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) : 153

آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) : 94

فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) 80

لنکے: 69

گرین: 67

یوں جرمنی میں حکومت سازی کی خاطر اس مرتبہ کم از کم 355 نشستوں کی اکثریت ہونا لازمی ہے۔

ناقدین کے مطابق ممکنہ طور پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل ایف ڈی پی اور گرین کے ساتھ مل کر حکومت سازی کر سکتی ہیں۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے مطابق نئی جرمن حکومت کے لیے انہی تین پارٹیوں کا اتحاد زیادہ ممکن ہے۔

موجودہ جرمن حکومت میں میرکل کی اتحادی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا ہے کہ وہ اب دوبارہ سی ڈی یو کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے بجائے ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھرے گی۔ اہم چھ سیاسی جماعتوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔

آٹھ بجکر نو منٹ: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی سیاسی پارٹی سی ڈی یو کے صدر دفتر میں ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ آئندہ کچھ ہفتے سخت ہوں گے۔ ان کا اشارہ حکومت سازی کے مشکل عمل کی طرف تھا۔ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ کون سی پارٹیاں اتحاد بناتے ہوئے حکومت تشکیل دیں گی۔

سات بجکر اٹھاون منٹ: دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی کامیابی پر متعدد جرمن شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ میونخ، کولون، ہیمبرگ، فرینکفرٹ، برلن اور ڈوسلڈوف میں ہونے والے مظاہروں میں شرکاء نے عوامیت پسندی کی سیاست کو مسترد کر دیا۔ ادھر جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے بھی اے ایف ڈی کے پارلیمان تک پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اے ایف ڈی کی کامیابی جدید جرمنی کی جمہوریت کے لیے ایک خطرے کی بات ہے۔

 

سات بجکر باون منٹ: فرانس کی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین اور ہالینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کے رہنما گیرت ویلڈرز نے جرمن انتخابات میں اے ایف ڈی کی کامیابی کو سراہا ہے۔ لے پین نے اپنے ایک ٹوئٹ مین اے ایف ڈی کی رہنما فراؤکے پیٹری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس پارٹی کو تاریخی کامیابی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

 چھ بجکر دس منٹ: گرین پارٹی کے رہنما چم اوزدمیر نے کہا ہے کہ کولیشن حکومت میں شمولیت میں ان کی پارٹی کی شرط ہو گی کی ماحولیاتی تبدیلیوں کو زیادہ توجہ دی جائے گی۔ ابتدائی جائزوں کے مطابق ماحول دوست اس پارٹی کو نو اعشاریہ پانچ فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

چھ بجکر پانچ منٹ: پولنگ انسٹی ٹیوٹ انفراٹیسٹ ڈِمپ نے کہا ہے کہ اے ایف ڈی کے حامی ساٹھ فیصد ووٹرز نے کہا ہے کہ وہ دیگر پارٹیوں سے غیر مطمئن تھے، اس لیے انہوں نے اس الیکشن میں اے ایف ڈی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اے ایف ڈی کو ووٹ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سو فیصدی اس پارٹی کی پالیسیوں سے متفق ہیں۔

پانچ بجکر سینتالیس منٹ: اے ایف ڈی کی اہم رہنما ایلس وائڈل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ پارلیمان تک رسائی کے بعد اب ان کی پارٹی اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے خلاف انکوائری شروع کرانے کی کوشش کرے گی کہ ’چانسلر نے کس طرح قانون شکنی کی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ انکوائری صرف میرکل کی مہاجرین کی پالیسی پر توجہ مرکوز کرے گی۔

پانچ بجکر پچیس منٹ: لیفٹ پاری کی رہنما سارہ واگن کنیچ نے اے آر ڈی سے گفتگو میں کہا کہ وہ اپنی پارٹی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ کسی بھی وفاقی الیکشن میں یہ اس پارٹی کی تاریخ کے دوسرے بہترین نتائج ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ امر یقینی ہے کہ لیفٹ پارٹی اور اے ایف ڈی اپوزیشن میں ہی ہوں گے۔

پانچ بجکر پندرہ منٹ: جرمن شہر کولون اینٹی اے یف ڈی ریلی کا آغاز ہو گیا۔ اس ریلی کے شرکاء نے بینر اٹھا رکھے ہیں، جس پر تحریر ہے کہ ’قوم پرستی متبادل نہیں‘۔

پانچ بجکر پانچ منٹ: کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے باویریا کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر نے ابتدائی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن ووٹرز نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جرمنی، جرمنی ہی رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امیگریشن کے حوالے سے قوانین سخت بنانے سے عوامیت پسند سیاستدانوں کو درست طریقے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس الیکشن کے ابتدائی جائزوں کے مطابق مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی تیسری بڑی سیاسی وقت بن کر ابھری ہے، جس پر دیگر تمام چھ بڑی سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

چار بجکر پچاس منٹ: کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا ہے کہ انہوں نے اس سے بہتر نتائج کی امید کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر انہی کا سیاسی اتحاد حکومت سازی کرے گا۔  انہوں نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اے ایف ڈی کا پارلیمان تک رسائی حاصل کرنا، ان کے لیے ایک چیلنج ہے۔

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fdw.urdu%2Fvideos%2F10155771608987210%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="315" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

چار بجکر چھیالیس منٹ: ایف ڈی پی کے رہنما کرسٹیان لنڈنر نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہی کی کوششوں سے یہ پارٹی ایک مرتبہ پھر پارلیمان تک پہنچ سکی ہے۔ برلن میں اپنی پارٹی کے دفتر میں انہوں نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ اس پارٹی کی تنظیم سازی کا عمل جاری رہے گا۔

چار بجکر بتیس منٹ: فری ڈیموکیٹک پارٹی کے جنرل سیکریٹری نے کہا ہے کہ یہ ابھی حتمی نہیں کہ ان کی پارٹی انگیلا میرکل کے ساتھ حکومت سازی کرے گی۔ ابتدائی پول جائزوں کے سامنے آنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ انتظار کیا جائے گا اور مشاورت سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

چار بجکر پندرہ منٹ: برلن سے ڈی ڈبلیو کی رپورٹر شارلوٹے پوٹس کے مطابق اے ایف ڈی کے رہنماؤں نے ایگزٹ پول جائزوں کے نتائج سامنے آتے ہی جشن منانا شروع کر دیا ہے۔

 

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fdw.urdu%2Fvideos%2F10155771397032210%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="315" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

چار بجکر چھ منٹ: ابتدائی پول جائزوں کے مطابق سی ڈی یو اور سی ایس یو کو 32.5 ووٹرز کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس قدامت پسند اتحاد کو ملنے والی عوامی حمایت میں نو فیصد کی کمی ہوئی ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق ایس پی ڈی کو 20 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی اس مرتبہ دس اعشاریہ پانچ فیصد عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اے ایف ڈی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسے تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

ان اندازوں کے مطابق گرین پارٹی کو نو اعشاریہ پانچ فیصد جبکہ لیفٹ پارٹی (ڈی لنکے) کو نو فیصد عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

چار بجے: جرمنی میں پولنگ کا اختتام ہو گیا۔

جرمنی بھر میں آج بروز اتوار وفاقی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ انتخابات سے قبل جاری کردہ عوامی جائزوں کے مطابق میرکل کا قدامت پسند سیاسی اتحاد اس الیکشن میں اکثریت حاصل کر لے گا۔ ان جائزوں کے مطابق دوسری پوزیشن پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) ہے، جس کی سربراہی یورپی یونین کے سابق اسپیکر مارٹن شلس کر رہے ہیں۔

Würselen Martin Schulz im Wahllokal zur Bundestagswahl
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ نے بھی آج بروز اتوار اپنا حق رائے دہی استعمال کیاتصویر: Reuters/T. Schmuelgen

ایسے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی آلٹربیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

جرمنی میں آج پولنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے ہوا، جو شام چھ بجے تک جاری رہے گا۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر اٹھاسی ہزار پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں، جہاں ماہر عملہ اس انتخابی عمل کی نگرانی کر رہا ہے۔ الیکشن حکام کے مطابق مجموعی طور پر 61.5 ملین ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fdw.urdu%2Fvideos%2F10155770516557210%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="315" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

مختلف عوامی جائزوں کے مطابق کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں اس کی اتحادی پارٹی کرسچن سوشل یونین کو چونتیس تا چھتیس فیصد عوامی حمایت حاصل ہے۔ یوں ممکنہ طور پر یہ سیاسی اتحاد الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔

Bundestagswahl 2017 | Stimmabgabe Angela Merkel, Bundeskanzlerin
جرمن چانسلر انگیلا میرکل انگیلا میرکل ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: Reuters/F. Bensch

ان عوامی جائزوں کے مطابق دوسرے نمبر پر سوشل ڈیموکریٹس ہیں، جنہیں اکیس تا بائیس فیصد عوامی تائید حاصل ہے۔ اندازوں کے مطابق گرین پارٹی، لیفٹ پارٹی اور فری ڈیموکریٹک  پارٹی (ایف ڈی پی) بھی پارلیمان تک رسائی حاصل کر لیں گی۔

<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fdw.urdu%2Fvideos%2F10155770797732210%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="315" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>

 

سن دو ہزار سترہ کے اس الیکشن میں اہم بات اے ایف ڈی کی ممکنہ کامیابی ہو سکتی ہے، جو اس سے قبل کبھی بھی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جرمن پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کا رجحان چار سال قبل کے انتخابات کی طرح کا ہے۔ الیکشن کمشنر نے بتایا کہ قبل از دوپہر ووٹنگ کا تناسب اکتالیس اعشاریہ ایک فیصد تھا، جو 2013ء کے انتخابات سے صفر اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے۔ اس میں خطوط کے ذریعے ڈالے جانے ووٹ شامل نہیں ہیں۔

ماہرین کو امید ہے کہ اس برس ریکارڈ تعداد میں شہری اپنا حق دائے دہی استعمال کریں گے۔ 2009 ء کے انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 70.8 فیصد تھا، جو اب تک کی سب سے کم ترین ووٹنگ کی شرح ہے۔ 

برلن میں ڈی ڈبلیو کی نمائندہ کیٹ بریڈی نے بتایا ہے کہ دوپہر تک دارالحکومت میں ووٹ ڈالنے کی شرح تیس فیصد رہی۔ امکان ہے کہ شام تک ٹرن آؤٹ کی یہ شرح زیادہ ہو جائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے جرمنی کے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کولون میں موجود ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے بتایا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی پارلیمانی الیکشن کے مقابلے میں اس مرتبہ ووٹ ڈالنے کی شرح تین فیصد زیادہ نوٹ کی جا رہی ہے۔