1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں نوجوانوں کی مسلم تنظیمیں

5 جون 2009

گذشتہ برسوں کے دوران جرمنی ميں نوجوان مسلمانوں کی کئی تنظيميں قائم ہوئی ہيں۔ ان کے کيا مقاصد ہيں اور يہ معاشرتی ترقی ميں کس طرح حصہ لينا چاہتی ہيں اور اس سلسلے ميں کيا مسائل ہيں۔

https://p.dw.com/p/I4KZ

ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ مسلم گروپوں نے مل کر ايک پراجيکٹ شروع کيا تھا جسے جبری شاديوں کے خلاف اتحاد کا نام ديا گيا تھا۔ شروع ميں اسے بڑی شہرت ملی۔ اس کے سرپرست،سوئٹزرلينڈ ميں مقيم ماہر اسلاميات اور،بقول ان کے، ’’ يورپی اسلام ‘‘ کے مفکر طارق رمضان تھے۔ ليکن اس دوران يہ پراجيکٹ سردخانے ميں ڈال ديا گيا ہے۔اس پراجيکٹ کے بانيوں ميں سے ايک، تسنيم النجار نے ہميں بتايا: ’’ ہم نے اکٹھے ہو کر يہ سوچا کہ ہم کيا کرسکتے ہيں۔ خصوصا اسلامی نقطہءنظر سے ہماری سوچ يہی ہے کہ اسلام کو مسئلے کے بجائے مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہئے۔ اس کے بعد ہم نے ايک منصوبہ تيار کيا اور اس کے لئے مالی امداد کی درخواست داخل کی۔ ليکن افسوس ہے کہ سماجی بہبود کے منصوبوں کے لئے مشورے فراہم کرنے والی سوسائٹی نے مدد کی منظوری نہيں دی۔‘‘

جبری شادی کے خلاف ايکشن کميٹی ميں ’’انسان ‘‘اور ’’مسلم نوجوان ‘‘ نامی تنظيميں بھی شامل ہيں ۔ جرمنی کا آئينی تحفظ کا محکمہ ان تنظيموں کی، مصری تنظيم اخوان المسلمون سے قربت رکھنے کے شبے ميں ان کی نگرانی کرتا ہے۔’’ مسلم نوجوان‘‘ کی مجلس صدارت کے رکن ہشام نے کہا :’’ايک مسلم تنظيم کی حيثيت سے ، جو يہاں معاشرے ميں خود کو شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے ، ہمارا يہ مسئلہ ہے کہ ہم مختلف محاذوں کے درميان گھرے ہوئے ہيں۔داخلی طور پر ہميں روايت پسندی سے لے کر انتہاپسندی تک سے نمٹنا پڑتا ہے ۔ ہميں يہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ ہم جمہوريت کے حامی ہيں اور غير مسلم معاشرے ميں اس طرح ضم ہونا چاہتے ہيں کہ ہماری پہچان بھی باقی نہ رہے ۔ دوسری طرف ہميں رياست ،حکام اور آئينی تحفظ کے محکمے کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جو، کم ازکم ہمارے خيال ميں، ہمارے نظريات پر ہم سے کوئی تبادلہء خيالات نہيں کرتے۔‘‘

Deutschland Köln Zentralmoschee in Ehrenfeld
کلون شہر میں بنائے جانے والی جرمنی کی سب سے بڑی مسجد کا نقشہتصویر: AP

اس طرح جبری شادی کے خلاف پراجيکٹ سردخانے ميں پڑا ہوا ہے ، جو کہ متاثرين کے لئے باعث افسوس ہے کيونکہ اس کی روک تھام کے سلسلے ميں سول سوسائٹی کے کسی نمائندے کے مقابلے ميں ايک مسلم تنظيم يا ادارہ متعلقہ مسلمانوں تک پہنچ کے لئےکہيں زيادہ کامياب ہو سکتا تھا۔

جرمن حکام اور انجمنوں کو بھی اس مشکل کا سامنا ہے کہ وہ کن مسلم تنظيموں کے ساتھ تعاون کرسکتے ہيں۔ مسلم،عيسائی،يہودی مکالمت کے منصوبوں کی حمايت کرنے والی ترک کارکن سونو گل کايا باسی نے کہا : ’’جب کوئی مسلم تنظيم مالی مدد کی درخواست داخل کرتی ہے تو ہم اس کی چھان بين کرتے ہيں۔اگر آئينی تحفظ کا محکمہ اس کی نگرانی کررہا ہوتا ہے تہ ہم کہتے ہيں کہ ہم آپ کو الگ نہيں کرتے،ہم آپ کو اس پراجيکٹ ميں شامل کرتے ہيں ، ليکن آپ اس کی قيادت نہيں کرسکتے۔ ہمارا مقصد ايسے گروپوں کو ساتھ ملانا ہے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زيادہ شفاف بن جائيں۔‘‘

سياسی تعليم کی پيشکش کرنے والی ايک تنظنم کے رکن Nordbruch کے خيال ميں اسلام مسلم نوجوانوں کے مسائل کے حل کا صرف ايک جزو ہے۔ ان کے مطابق جب کسی نوجوان کو منشيات يا جرائم ميں ملوث ہونے يا شراب نوشی کا مسئلہ ہوتا ہے تو اسے صرف قرآن کے حوالے سے گناہ کا احساس دلانا ہی کافی نہيں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی مدد کے منصوبوں ميں مساجد اور اسلامی تنظيموں کے ساتھ سول سوسائٹی کے اداروں کا شامل ہونا بھی ضروری ہے۔

تحریر: Christina Beyert/ شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ