1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: چاقو حملہ آور ذہنی مریض ہے، ’’مسلم انتہا پسند نہیں‘‘

عدنان اسحاق10 مئی 2016

صوبہ باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیر مان نے کہا ہے کہ میونخ کے قریب چاقو سے حملہ کرنے والا نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ ان کے بقول اس حملے کا مسلم انتہا پسندی سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔

https://p.dw.com/p/1IlAE
تصویر: picture-alliance/AA/L. Barth

صوبہ باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان کے مطابق ستائیس سالہ حملہ آور صرف نفسیاتی مریض ہی نہیں بلکہ وہ منشیات کا مسائل کا شکار بھی ہے۔ ان کے مطابق اس نوجوان نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان اولیور پلاٹزر کہتے ہیں،’’ ابھی تک ہمیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ یہ حملہ اسلامی انتہا پسندی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ تاہم تحقیقات بدستور جاری ہیں۔‘‘

پولیس کے مطابق دس مئی کی صبح پانچ بجے ایک شخص نے میونخ کے قریبی علاقے گرافنگ کے ریلوے اسٹیشن پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے چار افراد کو زخمی کر دیا۔ ان میں ایک پچاس سالہ شخص کچھ ہی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جبکہ دیگر زخمی ہونے والوں کی عمریں 43,55 اور 58 سال ہیں۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ زخمی ہونے والے دیگر تین شہریوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ یہ شہر صوبہ باویریا کے دارالحکومت میونخ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

Deutschland Messerattacke am Grafinger Bahnhof
تصویر: picture-alliance/AA/L. Barth

گرافنگ کی میئر اینگیلیکا اوبر مائر نے اس واقعے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے،’’ہم صوبہ باویریا کے میونخ خطے کا ایک چھوٹا سا پر امن شہر ہیں۔ اس طرح کا کوئی واقعہ ہمارے لیے بالکل نیا ہے اور ہم حیرت میں مبتلا ہیں۔ ہمارے علاقے کے لوگ اس طرح کی خبریں صرف ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے یہ ناقابل یقین ہے۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا کہ دارالحکومت برلن سے وہ اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی اس کے محرکات پر۔ جرمن وزارت داخلہ نے حملہ آور کی شناخت پاؤل ایچ کے نام سے ظاہر کی ہے اور وہ صوبے ہیسے کا رہنے والا ہے۔ اس بیان کے مطابق وہ جرمن شہری ہے اور اس کا تارکین وطن پس منظر نہیں ہے،’’ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اس واقعے کے اور بھی محرکات ہیں یا اس کا تعلق صرف نشے کی لت اور ذہنی مسائل سے ہے؟ ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے کی کوششیں جاری ہیں‘‘۔